• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم ذکر کر رہے تھے سرگنگا رام ہائی اسکول و ٹیچرز ٹریننگ سینٹر کی خوبصورت اور سحر انگیز عمارت کا۔ جس میں لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) ہے۔ اس کالج کے ہال میں ہم نے کئی خوبصورت تقریبات کی کوریج کی ہے۔ اس ادارے کی کئی نامور خواتین پرنسپل رہی ہیں۔ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر کی وہ پہلی خاتون جنہوں نے حساب میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کی تھی اور پندرہ برس تک لاہور کالج برائے خواتین کی پرنسپل رہیںتھیں، ان کا انٹرویو کیا تھا۔ ان کا نام پروفیسر ڈاکٹر مس علی محمد تھا۔پھر اس کالج کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹرمسز ایم بی حسن، ڈاکٹر رضیہ نور محمد، ڈاکٹر کنیز یوسف، پروفسر ڈاکٹر عارفہ سیدہ، پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ متین، مس نسیم قاضی، پروفیسر ڈاکٹر اقبال ڈار، پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزاآج کل پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز اس کی وائس چانسلر ہیں جنہوں نے یونیورسٹی کو بہتر بنانے کے کئی اقدامات کئے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ایم بی حسن نے آئی جی جیل خانہ جات کی سرکاری کوٹھی حاصل کرکے کالج کو دلائی تھی جس پر ڈاکٹر بشریٰ متین نے ماس کمیونیکیشن اور کئی دیگر شعبہ جات قائم کئے تھے۔ آئی جی جیل خانہ جات کی کوٹھی 36کنال پر تھی ہم نے یہ کوٹھی دیکھی ہے کیا خوبصورت اور روایتی طرز تعمیر کی یہ کوٹھی تھی اس میں آخری رہائش پذیر آئی جی جیل خانہ نذیر احمد کے نام کی تختی ایک مدت تک ان کے گھر کے باہر گیٹ پر لگی رہی تھی۔ بہرحال ہم بات کر رہے تھے کالج کے اولڈ گرلز ہوسٹل کی،اس تاریخی عمارت اور ایسا طرز تعمیر جو اب شاید ہی لاہور میں کہیں ہو،وہاںہر کمرے کی کھڑکی پر پرانے زمانے کی سلاخیں، کنڈیاں اور لکڑی کے پرانی طرز کے دروازے تھے۔ ایک کمرے کو لوہے کی تاروں سے بند کیا گیا تھا۔ہم نے اس کمرے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو بتایا گیا کہ قیام پاکستان سے قبل اس کالج میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوئوں، سکھوں، پارسیوں اور عیسائیوں کی بیٹیاں بھی زیر تعلیم تھیں، اس کمرے میں ایک ہندو لڑکی شکنتلا رہتی تھی، جس نے کسی وجہ سے اس کمرے میں خود کشی کرلی تھی، تب سے یہ کمرہ بند پڑا ہے ،جب تک اس تاریخی عمارت میں لڑکیوں کا ہوسٹل رہا کسی لڑکی کو اس میں رہائش نہیں دی گئی اور آج بھی یہ کمرہ خالی پڑا ہے۔ اب یہ تاریخی ہوسٹل ا سپورٹس آفس بن چکا ہے مگر عمارت کی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے حالانکہ صرف چند لاکھ روپے سے یہ تاریخی عمارت اپنے اصل حسن، فن تعمیر سے بچائی جا سکتی ہے۔ آج کل جو ہوسٹلز تعلیمی اداروں میں بنائے جا رہے ہیں وہ انتہائی بدنما اور بند کمرے ہیں۔ ان میں ہوا بھی نہیں آتی اور بجلی چلی جائے تو دم گھٹتا ہے۔ لاہور کالج برائے خواتین کے اس قدیم ہوسٹل کی یہ خوبصورتی ہے کہ اس کے چاروں طرف کمرے اور درمیان میں بہت وسیع لان ہے اور تمام کمروں کی چھتیں بہت اونچی ہیں اگر بجلی نہ بھی ہو تو بالکل گرمی کا احساس نہیں ہوتا۔ ہم کافی دیر تک اس تاریخی عمارت میںگھومتے رہے اور سرگنگا رام کی لاہور میں تعمیر کردہ تمام عمارتیں ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں۔لاہور کالج میں گوروں نے ہوسٹل میں رہنے والی طالبات کے کپڑے دھونے کے لئے باقاعدہ ایک دھوبی گھاٹ بنایا تھا ہم نے یہ دھوبی گھاٹ ناصرف دیکھا ہے،یہ دھوبی گھاٹ ابھی چار پانچ سال پہلے تک کام کرتا رہا اور دھوبیوںکے خاندان بھی یہاں رہتے رہے ہیں۔ پتہ نہیں پھر کسی سابق وائس چانسلر کو کیا سوجھی، انہوں نے یہ دھوبی گھاٹ ہی ختم کردیا بلکہ توڑ ڈالا۔ ارے اللہ کے نیک بندوں تعلیمی اداروں میں گوروں نے دھوبی گھاٹ اس لئے بنائے تھے تاکہ طالبات کی یونیفارم اور دیگر استعمال کے کپڑے وہاں پر اتنہائی سستے دام دھل سکیں، کیا خوبصورت منظر اور کیا کپڑوں کو پھٹکنے کی ایک خاص ردم والی آواز ہوتی تھی اور دھوبی گھاٹوں کا ایک اپنا ہی خوبصورت منظر ہوتا تھا۔ اب پتہ نہیں یہ طالبات باہر سے مہنگے داموں کپڑے دھلوانے کا خرچ کیسے برداشت کرتی ہوں گی، یا پھر خود دھوتی ہوں گی۔ اس پر پھر بات کریں گے۔ اس سابق وائس چانسلر نے دھوبی گھاٹ کے ساتھ تمام سرونٹ کوارٹرز بھی گرا دیئے اور ایک اسٹور بھی ختم کردیا۔ لاہور کالج کے اندر 1936ء کا پرنسپل کا تعمیر کردہ گھر آج بھی موجود ہے۔ اب پتہ نہیں کیوںاس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال نہیں کی جارہی۔ حالانکہ لاہور کالج کی آخری پرنسپل اور پہلی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ متین مرحومہ ایک عرصہ تک اس گھر میں رہی ہیں اور سامنے ان کا پرنسپل آفس تھا۔ ہم کتنے بدذوق اور تاریخی عمارتوں کے دشمن ہیں۔ لاہور کالج کے اندر سرگنگا رام یا ان کے دور سے پہلے کی کئی عمارتوں کو ختم کردیا گیا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری یونیورسٹی کے اندر کسی بھی سابق پرنسپل اور سابق وائس چانسلر نے سرگنگا رام کی کوئی تصویر یا ان کی زندگی کے بارے میں ایک لفظ تک بھی کہیں نصب نہیں کیا۔حالانکہ سرگنگام رام نے اس لاہور پر تعمیرات کے شعبہ میں بڑے احسانات کئے ہیں۔ سرگنگا رام اور بھائی رام سنگھ نے کیا کیا خوبصورت عمارتوں کی ڈیزائنگ اور تعمیر کی ہے۔ لاہور کالج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں پہلی ویمن کرکٹ ٹیم اس کالج میں بنائی گئی، ہم نے ویمن کرکٹ کا پہلا میچ بھی دیکھا ، مسز حمید اس ٹیم کی پہلی کوچ اور پہلی کپتان شہناز سلیم تھیں۔ کیا خوبصورت میچ کھیلا گیا تھا۔اس وقت کالج کی پرنسپل پروفیسر مس اقبال ڈار تھیں۔ کالج کے خوبصورت گرائونڈ میں ویمن کرکٹ کا شاید ہی کوئی ایسا میچ ہو جو ہم نے نہ دیکھا ہو۔امید ہے کہ لاہور کالج یونیورسٹی کی موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز اس تاریخی تعلیمی ادارے کی کئی قدیم روایات کو ناصرف زندہ کریں گی بلکہ اس کالج کا آغاز ہال روڈ کی جس عمارت سے ہوا تھا اس کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) سے حاصل کرکے دوبارہ محفوظ کریں گی کیونکہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نے اس تاریخی عمارت کو لاوارث چھوڑا ہوا ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین