شہباز شریف وزیرِ اعظم پاکستان منتخب ہوگئے، وہ ملک کے 24 ویں وزیرِ اعظم اور 16 ویں قائدِ ایوان منتخب ہوئے۔
شہباز شریف نے 201 ووٹ لیے جبکہ عمر ایوب نے 92 ووٹ حاصل کیے۔
وزیرِ اعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے اتحادی رہنماؤں کا نام لے کر شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے وزیرِ اعظم کے انتخاب کا طریقہ ایوان میں اراکین کو بتایا تھا جس کے بعد وزیرِ اعظم کے انتخاب کے عمل کا آغاز کر دیا گیا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا تھا کہ شہباز شریف اور عمر ایوب کے درمیان قائدِ ایوان کا مقابلہ ہو گا۔
انہوں نے اراکین کو بتایا تھا کہ شہباز شریف کے حق میں ووٹ کے لیے ارکان دائیں طرف کی لابی اے میں جائیں جبکہ عمر ایوب کے حق میں ارکان لابی بی میں جائیں۔
شہباز شریف، نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، خورشید شاہ، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، امیر مقام اور عامر ڈوگر سمیت دیگر ارکان ایوان میں موجود تھے۔
اس سے بھی پہلے جب اجلاس شروع ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان مینڈیٹ چور، چور چور کے نعرے لگاتے ہوئے ایوان میں داخل ہوئے تھے جبکہ ن لیگ کے ارکان کی جانب سے گھڑی چور کے نعرے لگائے گئے تھے۔
بعدازاں مسلم لیگ ن کے ارکان نے اپنی ڈیسک پر نواز شریف اور شہباز شریف کے پوسٹر رکھ لیے تھے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے ڈیسک پر بانی پی ٹی آئی کی تصاویر رکھی تھیں۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار عمر ایوب نے پارلیمنٹ پہنچنے پر صحافیوں کے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔
وزارتِ عظمیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار عمر ایوب سے صحافی نے چبھتے ہوئے سوالات کیے۔
عمر ایوب صحافیوں کو صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے کہ آپ کے پاس درست حقائق نہیں ہیں۔
دوسری جانب شہباز شریف سے صحافی نے سوال کیا کہ میاں صاحب کیا آپ پُرامید ہیں کہ آج جیت ہو گی؟
اس پر شہباز شریف نے کہا کہ جو اللّٰہ کو منظور ہو گا، ان شاء اللّٰہ بہتر ہو گا۔
صحافی نے سوال کیا کہ معاشی چیلنجز ہیں، آپ کو ذمے داری ملتی ہے تو درپیش مسائل کو کیسے حل کریں گے؟
شہباز شریف نے کہا کہ سب مل کر اس میں حصہ ڈالیں گے تو ملک میں بہتری آئے گی۔
قومی اسمبلی میں نواز شریف سے صحافی نے سوال کیا کہ میاں صاحب آپ کی حکومت بننے والی ہے کیا یہ حکومت 5 سال پورے کرے گی؟
نواز شریف نے جواب دیا کہ انشا اللّٰہ، اللّٰہ بہتر کرے گا۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے رکن عامر ڈوگر کا کہنا ہے کہ جعلی حکومت کو نہیں چلنے دیں گے۔
عامر ڈوگر نے کہا ہے کہ جب تک چھینا گیا مینڈیٹ واپس نہیں ملتا تب تک ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کی رکنِ قومی اسمبلی زرتاج گل نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی جیت چکی ہے، اس وقت صرف خانہ پُری ہو رہی ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہے کہ ابھی تک پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب کیلئے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ اگر وہ رابطہ کریں گے تو ہم بھی 15 سال کا حساب مانگیں گے۔
فاروق ستار نے کہا کہ پیپلز پارٹی بات کرنا چاہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں۔
وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کی جانب سے ارکان کے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے شہباز شریف اور عمر ایوب مدِ مقابل تھے۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو اپنی پارٹی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بھی ووٹ دینے کی ہامی بھری تھی۔
تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب بھی وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل تھے۔
وزارتِ عظمیٰ کے لیے ن لیگ اور اتحادیوں کے نمبر 200 ہیں، 326 کے ایوان میں سادہ اکثریت کےلیے 169 ووٹ ضروری ہیں۔
تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے پاس 92 ممکنہ ووٹ ہیں، دوسری طرف جے یو آئی ف نے اب تک وزارتِ عظمیٰ کے انتخاب میں لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
آئینِ پاکستان کے تحت قومی اسمبلی سے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے امیدوار کا مسلمان ایم این اے ہونا ضروری ہے۔
اسپیکر کے حکم پر وزیرِ اعظم کا انتخابی عمل شروع ہونے سے قبل 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جائیں گی، گھنٹیاں بجانے کا مقصد تمام اراکین کو اسمبلی کے اندر جمع کرنا ہے۔
گھنٹیاں بجائے جانے کے بعد ایوان کے دروازے مقفل کر دیے جائیں گے، جس کے بعد قائدِ ایوان کے انتخاب تک قومی اسمبلی ہال سے نہ کوئی باہر جا سکے گا اور نہ کسی کو اندر آنے کی اجازت ہو گی۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی وزارتِ عظمیٰ کے نامزد امیدواروں کے نام پڑھ کر سنائیں گے، قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے ایوان کی تقسیم کا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔
اسپیکر ایک نامزد امیدوار کے لیے دائیں اور دوسرے کے لیے بائیں طرف کی لابی مختص کریں گے، قومی اسمبلی کا ہر رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہے گا، اس کی لابی کے دروازے پر اپنے ووٹ کا اندراج کرے گا اور پھر انتخابی عمل مکمل ہونے تک لابی میں چلا جائے گا، اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی ووٹنگ مکمل ہونے کا اعلان کریں گے اور ایک بار پھر 2 منٹ تک گھنٹیاں بجائی جائیں گی تاکہ ارکان لابی سے واپس ایوان میں آ جائیں۔
اس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی قائد ایوان کے انتخابی نتائج کا اعلان کریں گے اور کامیاب امیدوار قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان و ملک کے وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔