• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی ٹی آئی کے مزاج کے بارے میں انسان کیا بات کرے۔ توقع تو یہی تھی کہ بدلتے حالات، مشکلات، سختیوں اور سزاؤں کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور بدلیں گے۔ عام انتخابات میں جو ہوا سو ہوا، آگے بڑھنا ہی وقت کا تقاضا تھا لیکن وہ کچھ سمجھنے کو تیار ہی نظر نہیں آتے۔ اب تو ان کے چاہنے والوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ انسان کے مزاج میںڈھلتی عمر میں تبدیلی ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ خان کی تو بات ہی نرالی ہے، صرف ہم اپنی ذات اور شخصیت کا ہی تجزیہ کرلیں کہ جو جہاں کھڑا ہے دائروں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔ خان کی پیرو کار یوتھ سے ایک ہی سوال ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو دوسری بار جو خط لکھ کر پاکستان کی معاشی قبر پر فاتحہ خوانی کرنے کی کوشش کی ہے کیایہ حب الوطنی ہے؟ کوئی حد ہوتی ہے۔ ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، پوری قوم اس کی سزا بھگت رہی ہے۔ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہو رہا کہ آئی ایم ایف کو ملکی سیاسی معاملات میں الجھا کر آپ کس کی قبر کھود رہے ہیں۔ ایک نیم مردہ قوم کو وقت سے پہلے قبر میں اتارنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بجا کہ آپ سمیت بہت سارے لوگوں کو انتخابی نتائج پر شدید تحفظات ہیں لیکن سیاست کا سیاسی میدان میں ہی مقابلہ کرنے والا سکندر ہوتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ دو آدمیوں کی لڑائی میں جب ایک کو اندھا دھند گھونسے پڑنے لگتے ہیں تو وہ میدان چھوڑتے ہوئے یہ بڑھک لگا کربھاگ جاتا ہے کہ میں بڑے بھائی کو بلا کر لاتا ہوں۔وہی تمہاری ٹھکائی کرے گا۔ کچھ ایسی ہی بڑھک بانی پی ٹی آئی لگا رہے ہیںکہ اپنے بڑے بھائی امریکہ سے مدد مانگ رہے ہیں اور چھوٹے بھائی آئی ایم ایف کو اس بات پر ورغلا رہے ہیں کہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ اس حد تک دبا کر رکھو کہ سانس رکنے لگے ،بانی پی ٹی آئی کے ہمدرد انہیں سمجھاتے سمجھاتے عملاً مر گئے کہ اپنے ماضی سے کچھ تو سبق سیکھیں، انسان کا مزاج بدلا نہیں جاسکتا یہ تو صرف اللہ ہی کا اختیار ہے کہ وہ کسی کا دل پھیر دے ورنہ ہم نے تو ایسے بہت سے لوگ پٹتے دیکھے ہیں کہ جن کو تھوڑا زیادہ خمار چڑھ جائے تو ان کی زبان بد ذائقہ ہو جاتی ہے، جب زبان کا ذائقہ خراب ہو جائے تو دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت جو اب سنی اتحاد کونسل کو پیاری ہو چکی ہے اس کے ڈی این اے میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہر کام میں مینگنیاں ڈالتی ہے۔ان سے کسی اچھے رویے کی کی اُمید رکھنے والے گویااحمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔ یہ لوگ ایسے خواب دیکھتے ہیں کہ جیسے ان کا لیڈر آئے گا تو پاکستان میں دودھ اورشہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور بھولے عوام ان کی اوچھی حرکتوں پر سوشل میڈیا پر واہ واہ کریں گے کہ ان کا لیڈر ڈرتا ورتا بالکل نہیں اور مظلومیت کے نام پر سوشل میڈیا پرایران، عراق، افغانستان کے حالات پر مبنی پرانی ویڈیوزپر ملک دشمن ایسے عنوانات کے ساتھ میمز بنا کر انتشار پھیلاتے ہیں کہ جیسے خدانخواستہ سارے ظلم، ناانصافیاں اور بدتہذیبی انہی سے ہورہی ہے۔ ایسے عناصر کو اپنے گریبانوںمیں جھانکنا چاہئے جو دفاعی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن کا ٹارگٹ اعلیٰ عدلیہ کی اہم ترین شخصیات ہیں جو جمہوری اداروں کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ خان کی پیرو کار چند خواتین بھی اس گھناؤنی مہم میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ریستورانوں ، گلی محلوں، محفلوں میں مخالف سیاسی رہنماؤں کا گھیراؤ کرکے چور چور کے جو نعرے لگا تی ہیں دراصل وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ کل ان کے بچے بھی یہ نعرے اپنے ماں باپ کے خلاف لگائیں گے۔ان خواتین کو سوچنا چاہئے کہ آج آپ کسی کی عزت اُچھال رہی ہیں تو کل انگلی آپ پر بھی اٹھے گی، بدتمیزی کے یہ واقعات جب دنیا کے سامنے اُچھالے جاتے ہیں تو پوری قوم کا سر جھک جاتا ہے۔ ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ جب یہ خواتین سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر جھوٹی شہرت، ریٹنگ حاصل کرتی ہیں تو عزیز و اقارب، رشتے دار وقتی چسکے کے بعد جو تبصرہ کرتے ہیں انہیں بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی خواتین، مرد یا نوجوان اپنے اہل خانہ کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، لوگ رشتے نبھانے سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ آزادی اظہار آپ کا بنیادی حق ہے لیکن سوچیں تو سہی یہ بہت بڑا عذاب بھی ہے۔ ایک فرد کی غلطی پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ سوشل میڈیا پر گند پھیلا کر پابندیوں کا جوڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے ۔ یہ گھناؤنا کام کرنے والے اپنے لیڈر سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے کہ آخر امریکہ سے مداخلت کی اپیل کیوں کی؟ آئی ایم ایف کو دوسری بار خط کیوں لکھا؟ یہ غلامی نہیں تو اور کیا ہے کہ شخصیت پرستی میں اس حد تک اندھے ہوگئے کہ اپنی شناخت ہی ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں،ان کو یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ جناب آپ کو خیبرپختونخوا میںوزیراعلیٰ بنانے کے لیے علی امین گنڈا پور کے علاوہ کوئی اور کیوں نہ مل سکا ۔ لولی لنگڑی جمہوریت کے نام پر جو منتخب اسمبلیاں بن رہی ہیں ان میں سنی اتحاد کونسل کے نام پر جو اپنی شناخت کھوئی ہے اس بارے میں بھی پوچھئے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ عام انتخابات میں دینی جماعتوں کا جو حشر ہواہے سنی اتحاد کونسل کے نام پر پی ٹی آئی کا انجام بھی سامنے نظر آرہا ہے۔ان کا حق بنتا ہے کہ وہ ان سوالوں کے جواب ضرور مانگیں ورنہ ہم سمجھیں گے کہ آپ سب غلام ہیں۔ صرف خواب دیکھنےوالے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے، حقیقت تو یہ ہے کہ تاریک راہوں کے مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔

تازہ ترین