قومی اسمبلی میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے سائفر کی تحقیقات کے مطالبے پر اپوزیشن نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب کی گرفتاری کے اگلے دن جان بوجھ کر سائفر کی کاپی بین الاقوامی پبلیکیشن میں پرنٹ ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ میں وزیرِ خارجہ رہا ہوں، مجھے پتہ ہے کہ سائفر کیا ہوتا ہے، خان صاحب ٹی وی پر آ کر نہ کہتے کہ یہ مجھ سے گم ہو گیا ہے، اگر ایک کاپی پاکستان کے دشمن کو مل جاتی ہے تو وہ ہمارا کوڈ ٹریک کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ خان صاحب کو یہ پتہ تھا کہ یہ جلسے میں ایسے ایسے لہرانے کی بات نہیں ہے، کیا ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سیکرٹ ڈاکومنٹ گھر میں رکھیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر میں خفیہ دستاویزات تھی تو امریکی خفیہ اداروں نے چھاپہ مارا ، چھاپہ مار کر ٹرمپ کے گھر سے ڈاکومنٹ برآمد کرائی گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خان صاحب کو گرفتار کیا گیا چاہے صحیح یا غلط، وہ اپنا کیس لڑیں، گرفتاری کے اگلے دن وہ مبینہ سائفر شائع ہوا، جان بوجھ کر کسی نے اس سائفر کی کاپی کو انٹرنیشنل پبلیکیشن میں پرنٹ کیا۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ سائفر کے بارے میں بات ہوئی اور بھٹو صاحب سے موازنہ کرایا گیا، بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ سینے میں ملکی راز لے کر چلا جاؤں گا، اگر یہ ہم سے جمہوریت اور آئین پر بات کریں گے تو میں یہی کہوں گا آپ یہ بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ خان صاحب کی گرفتاری کے اگلے دن سائفر ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے میں شائع ہو گیا، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے عوام بیوقوف ہیں، سائفر کی تحقیقات ہونا چاہیے، آئین سب کے لیے ہے۔
بلاول کی تقریر کے دوران جمشید دستی نے بار بار مداخلت کی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر کوئی بھی آئین کی خلاف ورزی کرے تو اسے سزا ملنا چاہیے، میں اس کا نواسہ ہوں جس نے پھانسی قبول کی لیکن اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی، پھانسی قبول کی، لیکن اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔
بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے شور شرابہ شروع کر دیا۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ جو لیکچر دینا چاہیں وہ ایک دوسرے کو لیکچر دیں ہمیں لیکچر نہ دیں۔
اس کے بعد اپوزیشن کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے جنہوں نے نعرے لگانا شروع کر دیے، اپوزیشن کے ارکان حکومتی ڈائس کے سامنے کھڑے ہو کر بھی نعرے بازی کرنے لگے۔
اپوزیشن کے نعروں اور شور شرابے کے بعد ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ جھوٹا الزام لگائیں گے تو ہم جواب بھی دیں گے، جب ان کو تکلیف ہو گی تو انہیں نظر آئے گا کہ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، یہ آئین کے خلاف کچھ کریں گے تو میں ان کے سامنے کھڑا ہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ آئین کو توڑیں گے تو میں سب سے پہلا آدمی ہوں گا جو ان کے سامنے کھڑا ہو گا، میں اس قسم کی حرکتوں سے مایوس نہیں ہوتا لیکن عوام ایسی حرکتیں پسند نہیں کرتے۔
بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا شور شرابہ جاری رہا۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ یہ بہت جذباتی لوگ ہیں، یہ 2 گھنٹے سے شور مچا رہے تھے، اگر آپ بات کریں گے تو اتنا حوصلہ رکھیں کہ ہمارا جواب بھی سن لیں۔
اس دوران اسپیکر سردار ایاز صادق بار بار عامر ڈوگر کو خاموش ہونے کے لیے پکارتے رہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ گالیاں دے رہے ہیں اور میں کہہ رہا ہوں کہ میں ان کا دفاع کروں گا، اگر یہ غیر آئینی اور غیر جمہوری کام کریں گے تو میں ان کے سامنے کھڑا ہو جاؤں گا۔
سنی اتحاد کونسل کے ارکان گو زرداری گو کے نعرے لگانے لگے تاہم نعروں کے باوجود بلاول بھٹو زرداری نے خطاب جاری رکھا اورکہا کہ جب تک اچکزئی صاحب کہہ رہے تھے کہ اسٹیٹ کی قرارداد پاس کریں، اگر سیاستدان ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو کو ئی ہماری عزت نہیں کرے گا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ہم سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کریں گے تو باقی اداروں سے بھی امید نہ رکھیں، اس سے پہلے ہم ایک دوسرے پر تنقید کرنا شروع کر دیں، میں ماحول خراب نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہمارے ادارے پر حملہ کرے، ہمارے شہداء کی یادگار پر حملہ کرے اور پاکستان اس بات کو بھول جائے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ جو حذف کرنے والے الفاظ ہوں گے میں وہ حذف کر دوں گا۔
اس موقع پر عمر ایوب اسپیکر کے سامنے پہنچ گئے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ قابلِ اعتراض الفاظ حذف کر دوں گا مگر غیر ضروری احتجاج نہیں ہونا چاہیے۔