• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک پرانی کہانی ہے۔ مگر اتنی پرانی بھی نہیں ہے کہ آپ مہاتما گوتم بدھ کے دور کو کھنگالنے بیٹھ جائیں۔ یہ ہماری اپنی تاریخ میں ناپید کہانی ہے۔ اس نوعیت کی نہ جانے کتنی کہانیاں تاریخ کے اوراق سے معدوم ہوچکی ہیں۔ غائب ہوچکی ہیں، گم ہو چکی ہیں۔ آج میں آپ کو ایسی ہی ایک گم گشتہ کہانی سنانے کہیں نہیں جارہا۔ یہیں آپ کے سامنے بیٹھ کر میں آپ کو کہانی سنائوں گا۔ آپ مجھ سے نہیں، کسی کھوجی سے پوچھئے کہ اس نوعیت کی کہانیاں ہماری تاریخ کے پنوں سے کیوں کر غائب ہو جاتی ہیں۔ آپ مجھ سے صرف کہانی سنیں ۔ کہانی کی صداقت کے بارےمیں آپ مجھ سے کچھ مت پوچھیں۔ سچ اور جھوٹ کے معاملے میں میری ساکھ خاصی متنازع ہے۔ درست ہے کہ میں دھڑلے سے جھوٹ بولتا ہوں۔ آپ مجھے پیدائشی جھوٹا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ مگر میرے بھائیو اور بہنو میں ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھار سچ بھی بول لیتا ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ خدا کے نیک بندے خدا کو حاضر ناظر جان کر میری کسی بات کو سچ قبول نہیں کرتے۔ اگر آپ کا شمار ایسے لوگوں کے صف اول میں ہوتا ہے، جو مجھے سچ اور سچائی کا منحرف مانتے ہیں، تو پھر آپ اپنا قیمتی وقت آج کی کہانی پڑھنے میں ضائع مت کیجئے اور اسٹاک ایکسچینج جاکر شیئر خریدیں اور بیچیں۔ یہی کام کچھ عرصہ پہلے تک گھوڑا دوڑ کی طرح جوا مانا جاتا تھا اور جوا سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ دونوں کام رزق حلال میں شامل کئے جاتے ہیں۔ جوئے کی طرح اس کام میں کبھی آپ کا نقصان ہوتا ہے اور کبھی فائدہ ۔ آپ ’’لے لیا اور دے دیا‘‘ کی چیخ و پکار میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ بہت بڑا فائدہ ہوا تو آپ بہت بڑا جشن مناتے ہیں۔ بہت بڑا نقصان ہوا تو آپ خود کشی کرلیتے ہیں۔ تمہید پر خاک ڈالتے ہیں یعنی پنجابی محاورے کے مطابق مٹی پاتے ہیں۔ آپ پرانی کہانی خندہ پیشانی سے سنیے اور مان لیجئے کہ دنیا میں ہر جھوٹا آدمی کبھی نہ کبھی سچ بولتا ہے۔ اور دنیا میں ہر سچا اور کھرا آدمی کبھی نہ کبھی جھوٹ بول دیتا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے دہرا دیتا ہوں کہ یہ پرانی کہانی گوتم بدھ کے دور کی نہیں ہے۔ گوتم بدھ کے دور میں آپ اپنے ملک پر مارشل لا نہیں لگاتے۔ لوگوں کو سرعام کوڑے نہیں لگاتے یہ روداد تازہ ہے، ہماری اپنی ہے۔ ہمارے ہاں آئے دن مارشل لا لگتے رہتے ہیں اور لوگوں کو نیک اور پرہیزگار بنانے کیلئے کوڑے بھی مارے جاتے ہیں۔ لوگ تیزی سے نیکو کار ہونے جارہے ہیں۔ آپ کہانی سنیے۔پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی اور ریکارڈ توڑ دھاندلی جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات کے دوران منظر عام پر آئی تھی۔ صدارتی انتخابات کے نتیجے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کسی نے سوچا تک نہیں تھا کہ قائداعظم کی بہن، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح پاکستان میں کسی سے الیکشن میں ہار سکتی ہیں۔ مگر وہ جنرل ایوب خان سے انتخابات میں ہار گئیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا حصہ مشرقی پاکستان مادر ملت کے ساتھ تھا۔ سندھ مکمل طور پر ان کے ساتھ تھا۔ آدھا پنجاب اور پورا بلوچستان مادر ملت کا حامی تھا، مگر وہ انتخابات میں ہار گئیں۔ حیران پریشان لوگ دنگ رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پاکستان میں غیر متوقع، اچانک کیا ہو رہا تھا۔ کیا پاکستان میں آنےوالے وقتوں کے لئے ممکنہ داغ بیل ڈالی جارہی تھی؟ قوم نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی۔اس وقت آدھا تیتر، آدھا بٹیر تھا۔ یعنی میں افسانے اور ڈرامے لکھتا تھا اور ایک اخبار کے لئے کام کرتا تھا۔ ہمیں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے ہمیں باور کرواتے تھے کہ پاکستان جن ستونوں پر کھڑا ہوا ہے ان میں سے ایک ستون صحافی بھائیوں کا ہے۔ یہ بات سننے کے بعد ہم اپنی اہمیت محسوس کرنے لگے۔ ہم ہڑ بڑا کر جاگ اٹھے۔ کاش کسی نے ہمیں اپنا اندازہ لگانے کے لئے تب جھنجھوڑا ہوتا جب ایوب خان نے پہلی مرتبہ پاکستان کو مارشل لا کا مزا چکھایا تھا۔ دیر آید، درست آید۔ ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اسی دن سے ہم جنرل ایوب خان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جائیں گے۔ اس کو اخباروں میں کوریج Coverage نہیں دیں گے۔ اس کی خبروں کو اخبار میں جگہ نہیں دیں گے۔ اس کی آئے دن کی پریس کانفرنسوں کو اہمیت نہیں دیں گے۔ بلکہ اس کی پریس کانفرنسوں کا بائیکاٹ کریں گے۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں ہے کہ اس پر سیاستدان نسل در نسل حکومت کرتے رہیں۔ ان دنوں جنرل ایوب خان اپنے بیٹے کو یعنی گوہر ایوب خان کو مستقبل میں پاکستان کا حکمراں بنانے کے لئے سیاست میں گھسیٹ کر لے آئے تھے۔ ہم نے جنرل ایوب خان کیساتھ ساتھ اسکے بیٹے گوہر ایوب خان کے خلاف کمانیں تان لیں۔ اس زمانے میں ٹیلی ویژن کا بول بالا نہیں تھا۔ لے دے کر اخبار تھے، جن کے ذریعے سیاستدان عوام تک پہنچ سکتے تھے۔ ہم نے انکے لئے تمام راستے بند کردیئے۔ ایوب خان اور انکے حمایتوں نے یعنی حمایت کرنے والوں نے طرح طرح کے حیلے بہانے بناکر ہمیں جیتنے اور حکومت کے خلاف نرم رویہ رکھنے کیلئے تمام پتے میز پر رکھ دیئے۔ مگر وہ پاکستان کے ایک مضبوط ستون کو ہلانے میں ناکام رہے۔ گوہر ایوب خان کو مناسب پبلسٹی نہ مل سکی۔ وہ سیاست میں اپنے لئے کوئی جگہ بنا نہ سکے۔ انہوں نے اپنی اولاد کو سیاست سے دور رکھ کر، کاروبار میں لگا دیا۔ ہم نے ثابت کردیا کہ اگر پاکستان کا ایک ستون حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی کوشش کرے، تو وہ کوشش کرسکتا ہے اور اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں جب آدھا تیتر آدھا بٹیر تھا، تب ہم نے فیلڈ مارشل ایوب خان کو مکمل طور پر ناکام کردیا تھا۔

تازہ ترین