• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج 8 مارچ ہے، عورتوں کا عالمی دن ۔ اس سلسلے میں آپ بہت سی تحریریں پڑھیں گے، ٹی وی رپورٹس بھی دیکھیں گے، بڑے شہروں میں جلوس بھی نکلیں گے، تقریبات بھی ہوں گی مگر میں آج کا دن اپنے ملک کے پسماندہ ترین علاقے کی نذر کر رہا ہوں کہ میرے ملک کے پسماندہ ترین علاقے میں کس نے علم کی شمع کیوںجلا رکھی ہے، وہ کون ہے جو راستہ بدلنے کی آرزو لے کر میدان میں اترا ہے۔ ماہ رمضان کی آمدآمدہے، اس مقدس ترین با برکت مہینے میں ہر مسلمان چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کمائے، اسلئے مسلمان اس ماہ مقدس میں عبادات کے علاوہ نیکیوں کے دوسرے راستے بھی ڈھونڈتے ہیں، وہ انسانی بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، دل کھول کر زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کیلئے عطیات بھی دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس سلسلے میں ایک بڑی رقم زکوٰۃ اور خیرات کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔ زکوٰۃ اور خیرات کا یہ سلسلہ مسلمان ملکوں کا صدیوں سے حسن ہے۔ مسلمان ریاستوں پر ایسے وقت بھی آئے جب زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا مگر بعد میں آنے والی حکومتوں نے ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ مسلمان تنزلی کا شکار ہو گئے، یہ تنزلی مسلمان معاشروں میں غربت بھی لے آئی۔ اب حکومتیں اپنے طور پر کوششیں تو کرتی ہیں مگر شاید ان کے پاس غموں کا پورا مداوا نہیں ہے، غم اور غربت کی اس شدت کو کم کرنے کیلئےمخیر حضرات کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح معاشرے میں دکھوں کا مداوا ہو سکے۔ ہم خوش قسمت لوگ ہیں کیونکہ اگر دنیا بھر کے اسلامی ملکوں کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان معاشی طور پر ایک کمزور ملک ضرور ہے مگر زکوٰۃ، خیرات اور عطیات کے حوالے سے پاکستان کے لوگوں کا دل کشادہ ہے، وطن عزیز میں ہر سال انفرادی سطح پر دی جانے والی زکوٰۃ ،خیرات، صدقات اور عطیات کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک کے مخیر گھرانے جو رقم خیرات، صدقات اور عطیات کی صورت میں دیتے ہیں اس کی کل مالیت ڈھائی سو ارب کے لگ بھگ ہے، اس طرح ایک خطیر رقم مخیر حضرات کی جانب سے مستحقین تک پہنچتی ہے۔ اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک بسنے والے عظیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد دل کھول کر عطیات دیتی ہے۔ بیرون ملک بسنے والے ان عظیم پاکستانیوں کا رخ اس سلسلے میں پاکستان ہی کی طرف ہوتا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس لحاظ سے بھی با برکت ثابت ہوتا ہے کہ فلاحی اداروں کو افطار ڈنرز پر اپنے ادارے کی کارکردگی پیش کرنے کا موقع ملتا ہے، ظاہر ہے لوگ کسی بھی فلاحی ادارے کا کام دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے غیر سرکاری فلاحی اور رفاہی ادارے مختلف شعبوں میں قابلِ ستائش خدمات انجام دے رہے ہیں، ایک طرح سے یہ ادارے حکومتوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ ادارے ریاست کے اندر بہترین معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی کارکردگی کے بارے میں جان کر جہاں بے حد خوشی ہوتی ہے وہیں حوصلہ بڑھتا ہے اور پھر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جب تک وطن عزیز کے اندر یہ فلاحی ادارے سرگرم عمل ہیں اس وقت تک تو پاکستان کبھی ناکام ریاست نہیں بن سکتا۔ پاکستان کے مثالی فلاحی اداروں میں ایک معتبر نام غوثیہ کالج مظفرگڑھ کا ہے۔ ہمارے جنگ کے کالم نگار ڈاکٹر صفدر محمود مرحوم اس ادارے کے حوالے سے کئی کالم لکھ چکے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود کے کالم پڑھ کر ایسے لگتا تھا کہ جیسے ان کا دل مظفرگڑھ جیسے دور دراز علاقے کے اس کالج کے ساتھ جڑ گیا ہے۔جنوبی پنجاب کےپسماندہ شہر مظفرگڑھ میں ایسے ادارے کا قیام واقعتاً قابلِ ستائش ہے کیونکہ اس ادارے میں جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین شہروں، دیہات سے لے کر بلوچستان کے بارڈر تک جوسیاسی،سماجی، ترقیاتی اور تعلیمی محرومیاں ہیں، اس کا ادراک اگرچہ ہر پاکستانی کو ہے۔ مگر غربت اور تعلیمی پسماندگی کے باعث بہت سے نوجوان انہی غریب علاقوں سے جرم کے تاریک راستوں پر چل پڑتے ہیں، غوثیہ کالج مظفرگڑھ کے قیام کے بعد ان غریب بستیوں کے رہنے والوں کو ایک روشن چراغ نظر آیا اور انہوں نے حصول تعلیم کیلئے اپنے بچوں اور بچیوں کو غوثیہ کالج کا راستہ دکھایا۔ اس کالج میں کوئی بچہ لیہ کا ہے تو کوئی بچی کوٹ ادو کی، کسی طالب علم کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے تو کوئی ملتان کا رہنے والا ہے، کوئی راجن پور اور وہاڑی سے حصول تعلیم کیلئے آیا ہے تو کوئی خانیوال سے، لودھراں اور بہاولپور سے بھی کئی بچے اس کالج سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہاں بلوچستان کے علاقوں سے بھی بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں، ہم نے وہاں بارکھان بلوچستان سے آئے ہوئے کئی بچوں اور بچیوں سے ملاقات کی۔ مظفرگڑھ کے اس عظیم تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈاکٹر طارق بھابھہ نے 2009ء میں معروف کالم نگار ڈاکٹر صفدرمحمود مرحوم کی زیر قیادت رکھی۔ ڈاکٹر طارق بھابھہ روحانی طور پر چشتیہ سلسلے سے وابستہ ہیں اور ان کے کئی دوست انہیں ڈاکٹر طارق چشتی کے نام سے جانتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق کے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ میرے خطے کے نوجوان برائی کے راستے سے ہٹ کر راہ مستقیم اختیار کریں ملک و ملت کا سرمایہ بنیں۔ بنیادی طور پر اس ادارے کا مقصد اس علاقے کے غریب،یتیم اور نادار بچوں کو تعلیم دینا ہے۔ہمارے سامنے ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ کیسے کیسے ذہین ترین بچے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے مختلف جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھ کر آج وہ معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ڈاکٹر طارق بھابھہ نے غوثیہ کالج کے ذریعے اس پسماندہ ترین علاقے کے نوجوانوں کا راستہ بدلنے کی کوشش کی، وہ دن رات اسی کاوش میں لگے رہتے ہیں، آئیے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ان کا ہاتھ بٹایئے اور انکے غریب اور نادار بچوں کے تعلیمی اخراجات میں معاونت کریں تاکہ وہ معاشرے میں ملک و ملت کا نام روشن کریں، اس مقصد کیلئے ان غریب طلباء کی آنکھیں آپ کی طرف دیکھ رہی ہیں، اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کیلئے ان بچوں کا ہاتھ پکڑیں، ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔ آپ اپنے عطیات غوثیہ کالج کے اس اکاؤنٹ نمبر پر

Account title GHOUSIA COLLEGE MUZAFFARGARH

A/C NO.60201657475000281

BAN:PK25BPUN

6020165747500028 Bank of Punjab

بھیج سکتے ہیں۔ آپ جرائم کا راستہ روک سکتے ہیں، آپ غریب بچوں کو ذمہ دار شہری بنا سکتے ہیں۔ بقول اقبال کہ

نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹّی بہت زرخیز ہے ساقی

تازہ ترین