• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ نہ کرے فواد چوہدری کو کچھ ہو۔الحمدللہ جیل میں صحیح سلامت ہیں ۔بس یاد آئے توسوچا ان کیلئے کچھ لکھا جائے ۔وہ بھی ایک طویل عرصہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔دعا بھی ہے اور التماس بھی کہ جلد سے جلد تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا جائے تاکہ گلشن کا کاروبار چلے۔ایسا لگتا ہے کسی نے رستے میں بہار کو روک لیا ہے ۔میں ہمیشہ فواد چوہدری کی صلاحیتوں کا معترف رہا۔جب انہیں وزیر اطلاعات بنایا گیا تھا تو اس وقت پاکستان ٹیلی وژن ساڑھے چار بلین کے خسارے میں تھا اور جب چھوڑاتو ساڑھے تین بلین کے منافع میں تھا۔جس وقت انہیں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی دی گئی تو کوئی اس وزارت کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔ مگر جیسے ہی انہوں نےچاند دیکھنے کی جدید ایپ بنوائی تو ملک بھرمیں اسی کے چرچے تھے ، کوروناکے دوران ماسک، وینٹی لیٹرز اور کئی مشینیں بنوائیں ۔کہنے کا مطلب ہے جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے ۔

میں نے پچھلے دنوں کسی سے پوچھا فواد چوہدری پر مقدمات کیا کیا ہیں ۔اس نے کہا’’ ایک کیس تو یہ ہے کہ انہوں نے جہلم تک دو رویہ سڑک بنوانے کیلئے اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کیا‘‘۔میں ہنس پڑا اور پھرخاصی دیر سوچنے کےبعد بولا ۔’’اپنے حلقے میںسڑک کی تعمیر کیلئے سفارش تو ان کا حق تھا،اس پر لاکھوں لوگ سفر کرتے ہونگے ۔صرف انہی کی کار تھوڑا آتی جاتی ہوگی ‘‘۔تو کہنے لگا ۔’’سڑک ابھی مکمل نہیں ہوئی ۔سولہ ارب کا پروجیکٹ تھا ۔آٹھ ارب لگ چکے تھے ۔آٹھ ارب ابھی اور خرچ ہونا تھے کہ کام بند کرادیا گیا۔اب اس کی لاگت چوبیس ارب پر چلی گئی ہے ۔جہلم، پنڈدادن خان ، سوہاوہ، ڈومیلی کے علاوہ گوجرخان اور کشمیر کے لاکھوں لوگ جو اس سڑک کے بننے سےوسطی پنجاب سے براہ راست جڑ جاتے وہ ابھی تک اس منصوبے کی تکمیل کا انتظار کر رہے ہیں‘‘۔میں نے پوچھا اور کیا کیس ہیں تو ہنس کر کہنے لگا۔ ’’چند ایک تو انتہائی مضحکہ خیز کیس ہیں، ایک کیس کھاد کی چوری کا ہے۔اس کے علاوہ اس کے حلقے کے سارے کام بند کر دئیے گئے ۔ ٹوبہ کے مقام پر ایک ٹراما سینٹر کا 55 فیصد کام مکمل ہو چکا تھاکہ کام بند کر دیا گیا۔بہت سی پانی کی اسکیمیں بند کردی گئیں مگر انصاف ملنے کی امید ابھی تک قائم و دائم ہے ۔

اب میرا ہنسنے کا موقع تھا ۔میں نے کہا ’’جس ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کو پینتالیس سال بعد بھی پوراانصاف نہیں ملا ۔تیرہ سال کے طویل مقدمہ کے بعد بھی یہی کہا گیا کہ ٹرائل منصفانہ نہیں تھا مگر نہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے نہ تبدیل ہو سکتا ہے ۔وہاں تمہیں انصاف کی توقع ہے ۔سبحان اللہ ۔جہاں رات کے اندھیرے میں جیتنے والے صبح کے اجالے میں ہار گئے تم وہاں منصفی کے خواب دیکھتے پھرتے ہو ۔بے شک مایوسی حرام ہے مگر دل بہت اداس ہے ،افسردگی ہے کہ جاتی ہی نہیں ۔

نو مئی کا معاملہ بھی میری سمجھ میں نہیں آرہا۔نو مئی کودس ماہ ہو گئے ہیں ،کسی عدالت نے کسی مجرم کو کوئی سزا نہیں دی ،گناہگاروں کے ساتھ بے گناہوں کو جیلوں میں قید رکھا ہواہے ۔تمام ویڈیوز موجود ہیں ۔مثال کے طور پر ویڈیو میں موجود ہے کہ لاہور کے جناح ہائوس میں داخل ہونےسے ڈاکٹر یاسمین راشد منع کررہی ہیں مگروہ جیل میں ہیں۔جن لوگوں نے شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا انہیں سزا دی جائے اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں مگرجو لوگ پُرامن احتجاج کررہے تھے یا محض وہاں موجود تھے انہیں تو رہا کیا جائے ۔پھر بےشمار ایسے لوگوں پر مقدمات ہیں جو وہاں موجود ہی نہیں تھے ۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ جنہوں نے دھاندلی کی ہے ، جنہوں نے نتائج بدلے ہیں ان کے خلاف کونسےتھانہ میں مقدمہ درج ہوگا ، کونسی عدالت سے انہیں انصاف ملے گا ۔لوگ فارم 45 ہاتھوں میںاٹھائے پھرتے ہیں ۔کیا قوم کی رائے مقدس نہیں ۔قوم کے ووٹ کے ساتھ ایسا بھیانک سلوک اور اس پر ایسی خاموشی حیرت انگیز ہے ۔ابھی سینٹ کی 48نشستوں پر انتخابات ہونے ہیں صدر کا انتخاب ہونا ہے ۔کیافارم 47 والوں کے ووٹوں سے بننے والےصدر اور سینیٹرزکو تسلیم کرنے کیلئے قوم تیار ہوگی؟۔کیا قوم کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔کیاپاکستان میں انسان نہیں ڈھورڈنگر آباد ہیں ۔لوگوں کے ووٹ سے بننے والے ملک کے ساتھ ایسا سلوک بہت تکلیف دہ ہے ۔

مجھے نوازشریف کا بھی دکھ ہے ان کاتیس سالہ سیاسی سفر کہاں اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ یہ سوال پرویز رشید اور عرفان صدیقی سے ہے۔ کیا انکی جدوجہد اسی دن کیلئے تھی۔ کیا اسی دن کیلئے انہوں نے جیلوں کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو اسی دن کیلئے پھانسی کا سزا وار ہوا تھا۔ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو اسی دن کیلئے شہید ہوئی تھیں۔ بات شروع ہوئی تھی فواد چوہدری سے، کہاں نکل آیا ہوں۔ اسی کی طرف واپس چلتا ہوں۔ کل ان کی بیٹی کی ویڈیو دیکھ رہا تھا ۔چھوٹی سی بچی اپنے ابو کیلئے ایک کارڈ بنا کر لے گئی تھی مگر وہ کارڈ اپنے ابوتک نہ پہنچا سکی۔ دکھ ہی دکھ ہے چاروں طرف دکھ ہی دکھ۔سلام ہے قیدی نمبر 804پرکہ جس کے ماتھے پر ابھی کوئی شکن نہیں ابھری۔ جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے ۔جس کی آنکھوں میں ابھی تک انوکھی چمک موجود ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔

تازہ ترین