• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت امریکہ کے 81سالہ صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ’’آزادی اور جمہوریت دونوں خطرے میں ہیں۔ امریکہ اور دنیا میں دونوں پر حملے ہو رہے ہیں۔‘‘

کمال کا اعتراف حقیقت ہے یا اقبال جرم کہ جو دنیا بھر میں قوموں کی آزادی پر خود حملے کر رہا ہے، اور جو پوری دنیا میں ملکی انتخابات کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اپنی مرضی کی حکومتیں لانے کیلئے ڈالر بھی استعمال کرتا ہے۔ ان ملکوں کے ریاستی اداروں کو دھن بھی دیتا ہے۔ دھونس بھی۔ جو میڈیا کو بھی دبائو میں لاتا ہے۔ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ڈس انفارمیشن بھی پھیلاتا ہے۔ وہ ببانگ دہل یہ کہہ رہا ہے کہ آزادی اور جمہوریت دونوں خطرے میں ہیں۔ یقیناً امریکی صدر سے زیادہ باخبر کون ہو گا۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور طاقت ور پینٹاگون تو امریکہ کے دست و بازو ہیں۔ یہی دونوں دنیا بھر کے ملکوں میں مداخلت کرتے ہیں۔سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ امریکی صدر جب یہ کہہ رہا ہے کہ آزادی اور جمہوریت دنیا میں خطرے میں ہیں۔ یہ ایک ہدایت بھی ہے۔ تمام امریکی ریاستی اداروں کیلئے کہ آئندہ بھی یہ مداخلت جاری رکھناہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ مقامی اور بین الاقوامی حالات پر تبادلہ خیال کے لمحات۔ مجھے تو عمر کے آخری حصّے میں یہ قلق ہوتا ہے کہ ہم اپنی چھ سات دہائیوں میں مسلسل اظہار خیال، کتابیں تصنیف کرکے بھی آزادی اور جمہوریت کا تحفظ نہ کرسکے، حقیقی آزادی نہ لا سکے اور نہ ہی سچی جمہوریت۔

اقبال نے بہت صحیح کہا تھا:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

8 فروری کی رات سے سارے مقتدر ادارے بندے گننے میں مصروف ہیں۔ ہر جیل میں غروب آفتاب کے وقت ’’ٹوٹل‘‘ ہوتا ہے۔ پھر بیرکوں کو تالے لگائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی تالے لگانے سے پہلے بار بار گنتی کی گئی۔ بندوں کو تولا نہیں گیا۔ فارم 45میں جو کمی رہ گئی تھی، فارم 47 میں پوری کی گئی۔ اب بڑی ڈھٹائی سے کہا جا رہا ہے کہ اس اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ ہمارے سویلین بھول جاتے ہیں کہ ٹوٹل پورا کروانے والے 10اپریل 2022کو کسی دوسرے کا ٹوٹل بھی اسی طرح پورا کرواتے ہیں۔ یہ دو تہائی اکثریت 12 اکتوبر 1999 کو بھی کام نہیں آئی تھی۔

ہمارے انتخابات تو کروائے جاچکے۔ مارچ میں سینیٹ کا الیکشن ہوتا ہے۔ اس لیے مارچ کا مارچ سب کو یاد رہتا ہے۔ اب سینیٹ کے لیے ٹوٹل پورا کیا جارہا ہے۔ سینیٹ کو ایوان بالا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں ذہین، ٹیکنو کریٹ مدبرین ہوتے ہیں۔ جو ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اس کی سیٹیں جب سے بکنے لگی ہیں پہلے سے کروڑوں خرچ کر کے آئے ہوئے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان اپنے خرچے پورے کرنے کیلئے فکر مند ہوتے ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں کے سربراہوں کے بھی خرچے ہیں۔ اس لیے سب مل کر جمہوریت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں معصوم بلاول شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے پر سپریم کورٹ کے فرمان کے بعد کیسے امید باندھ رہے ہیں کہ اب نظام بہتر ہو جائے گا۔ یہ فرمان 45 سال پہلے کے ایک غلط اور ہلاکت خیز فیصلے کے بارے میں جاری کیا گیا ہے۔ جس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست پاکستان یہ سرکاری اعلان کرے کہ اب شہید بھٹو قاتل نہیں بلکہ غلط ریاستی اور عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں قتل کیے گئے کہلائیں گے۔اور انہیں پس مرگ ’نشانِ پاکستان‘ سے نوازا جائے۔ اب عدلیہ اور وکلا کی طرف سے یہ عہد کیا جائے کہ وہ انصاف کی فراہمی میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ یا مقامی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا شکار نہیں ہوں گے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے یہ فیصلے اس وقت کے آرمی چیف نے کروائے تھے۔ میں نے اپنی خود نوشت ’شام بخیر‘ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 18مارچ 1978 سے کچھ دن پہلے آرمی ہائوس میں آرمی چیف، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور پی پی آئی کے سربراہ کا اجلاس ہوا۔ اس میں ہی طے کیا گیا کہ سزائے موت ہوگی۔ سپریم کورٹ بھی یہ فیصلہ برقرار رکھے گی۔ آرمی چیف کو ظاہر ہے عالمی طاقتوں کی ہدایت بھی یہی تھی۔

اس وقت کی عدلیہ نے جن طاقتوں کی اطاعت میں یہ قانونی کارروائی کی۔ وہ آج بھی اسی طرح سرگرم عمل ہیں۔ ہماری قومی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب آئیں پھر صدر جوبائیڈن کی تقریر کی طرف۔ اس کا آغاز ہی اس بات سے ہوا ہے کہ آج ہم غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اشارہ ہے۔ غزہ کیلئے کہا گیا ہے کہ ہم ایک فضائی پل تعمیر کریں گے تاکہ غذا سے محروم سات لاکھ انسانوں کو کھانا پہنچا سکیں۔ لیکن سفاک اسرائیل سے اپنا فوجی اتحاد ختم نہیں کیا گیا۔ فلسطینیوں کو کھانا اور اسرائیل کو اسلحہ فراہم ہوتا رہے گا۔میں یہ سوچ رہا ہوں آپ کی بھی فکر یہی ہوگی کہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں دنیا نئی سیاسی قیادت قبول کرنے کو کیوں تیار نہیں ہے۔ امریکہ میں لڑکھڑاتے بائیڈن اور بڑبڑاتے ٹرمپ کو ہی کیوں لایا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ضدّی حسینہ واجد کو کیوں لایا گیا۔ انڈیا میں وہی متعصب مودی کو پھر راج کیوں دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں پھر شریف خاندان کو کیوں مسلط کیا گیا ہے۔ 35سالہ بلاول کو پیچھے ہٹاکر 68 سالہ زرداری کو آگے کیوں لایا گیا۔

یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ عین وقت پر میاں نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنانے کا فیصلہ کسی مقامی نے کیا یا بین الاقوامی نے۔ امریکہ میں دو ضعیفوں کو لڑوایا جا رہا ہے۔ مگر وہاں بہت سے تھنک ٹینک ہیں جہاں جواں سال محقق بھی ہیں۔ تجربہ کار سفارت کار بھی پروفیسرز بھی۔ آئندہ کی پالیسیاں وہ تشکیل دیتے ہیں۔ اس بار وہ ان نکات کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ 1۔روزگار کے مواقع۔ 2۔معیشت۔ 3۔قرضوں کی ادائیگی۔ 4۔مصنوعی ذہانت۔ 5۔قومی سلامتی۔ 6۔عالمی قیادت۔ 7۔موسمیات۔ 8۔توانائی۔ 9۔جمہوریت۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ جمہوریت سب سے آخر میں ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے ادارے اپنے آپ کو تھنک ٹینک کہتے ہیں۔ گرانٹ بھی لیتے ہیں۔ لیکن وہ آئندہ 5سال کیلئے کوئی ترجیحات مرتب نہیں کرتے۔ یونیورسٹیاں سیمینارز کے ذریعے کوئی رہنمائی نہیں کرتیں۔ پارلیمنٹ میں بھی اہم نکات پر کوئی بات نہیں کرتا۔ قومی سیاسی پارٹیوں نے ملک گیر کنونشن منعقد کرکے اب تک کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ۔ان سارے اہم امور پر ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ہی سوچنا اور کچھ کرنا پڑتا ہے۔ پھر ہم اسے آسانی سے سول امور میں مداخلت قرار دے دیتے ہیں۔

تازہ ترین