(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور کالج برائے خواتین میں 1934ءسے 1938ء معروف بھارتی اداکار امیتابھ بچن کی والدہ Tegi Kaur Suriبھی زیر تعلیم رہی ہیں اس وقت لاہور کالج ہال روڈ پر ہوتا تھا اور اس کا بھی یہ نام تھا۔ لاہور کالج ہال روڈ پھریہ لاہور کالج جیل روڈ پر آگیا تھا۔امیتابھ بچن کی والدکو کا لج میں تیجو کہا جاتا تھا وہ کالج میں ڈرامیٹک سوسائٹی کی صدر تھیں، انہوں نے چار سال لاہور کالج ہال روڈ میں تعلیم حاصل کی۔وہیں ہاسٹل میں بھی رہائش پذیر رہیں ۔ انہوں نےبی اے سیکنڈ ڈویژن میں لاہور کالج سے کیا اس زمانے میں لاہور کالج سے بی اے کرنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی اور پھر سیکنڈ ڈویژن میں لڑکوں کا بی اے کرنا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امیتابھ بچن نے اپنے کسی انٹرویو میں آج تک لاہور کا ذکر اور اپنی والدہ کا نہیں بتایا کہ وہ لاہور کالج برائے خواتین میں زیر تعلیم رہی ہیں اور کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی کی صدر تھیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے شاید کسی اسکول میں انہوں نے کچھ عرصہ پڑھایا۔بہرحال لاہور کالج والوں نے ایک اچھی روایت قائم کی ہے اور ان کی تصویر اپنے میوزیم میں لگا ئی ہے ۔لاہور کالج کی تاریخ کو مرتب کرنے میں پروفیسرشائستہ وائیں سابق رجسٹرار لاہور کالج ویمن یونیورسٹی نے بہت کام کیا ہے ان کا یہ کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اب ہم لاہور کالج ہال روڈ کا تھوڑا سا ذکر کرتے ہیں گوروں نے مئی 1922ء میں 19ہال روڈ لاہورپر لڑکیوں کے لئے ایک چھوٹی سی عمارت میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر کلاسز کا آغاز کیا یہ لڑکیوں کا چوتھا اقامتی ادارہ تھا۔ 14، 9ہال روڈ دونوں عمارتوں میں لاہور کالج اس کا ہاسٹل، پرنسپل کا گھر اور دیگر دفاتر تھے۔ اس سے قبل کنیئرڈ کالج، کوئین میری کالج، اور اسلامیہ کالج کوپر روڈ پر تھے انگریزوں نے لاہور میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کےپردہ کالج شروع کئے تھے۔
عزیز قارئین آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ آج بھی کوئین میری اسکول میں برآمدوں میں انگریزوں کے دور کی لکڑی جفری لگی ہوئی ہے جو آج بھی اپنی اصل شکل وصورت میں ہے ۔کوئین میری کالج و اسکول کی بڑی شاندار روایات تھیں کبھی ان کا ذکر کریں گے موجودہ پرنسپل ڈاکٹر سدرہ امین کالج و اسکول کی پرانی روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہی ہیں یہ بڑا خوبصورت کالج و اسکول کسی زمانے میں تھا۔یہ بات بھی آپ کے لئے حیرت کا باعث ہو گی کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ چنانچہ لاہور کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ کیا گیا یہ بات بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گی کہ نویں سے بارہویں جماعت تک قائم ہونے والے اس کالج میں اس وقت صرف 35 طالبات زیر تعلیم تھیں لاہور کالج کا آغاز اسکول کی کلاسوں سے ہوا تھا یعنی یہاں دو برس تک نویں اور دسویں جماعت میں داخلہ ہوتا رہا تھا۔آج پتہ نہیں وہ طالبات کہاں گئیں جن کےپاس میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کا پنجاب یونیورسٹی کا سرٹیفکیٹ ہو گا۔ ویسے ہمیں آج سے کئی برس قبل کسٹم کے ایک ایسے ملازم ملے تھے جن کے پاس پنجاب یونیورسٹی کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ تھا اس زمانے میںلوگ زبانی طور پر اپنی تاریخ پیدائش یونیورسٹی میں لکھوا یا کرتےتھے پھر لاہور میں بے شمار کیس سامنے آئے جن میں لوگوں کی تاریخ پیدائش پہلے کچھ تھی بعد میں کچھ اور ۔
1924ء میں لاہور کالج سے میٹرک اور نویں جماعتوں میں داخلہ ختم کر دیا گیا اور ہال روڈ کی خوبصورت عمارت جس کا ڈیزائن اور تعمیراتی حسن آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اس میں پرنسپل کا گھر، دفاتر اور لڑکیوں کا ہاسٹل بنا دیا گیا اس تعلیمی ادارے کا پہلا نام لاہور انٹرمیڈیٹ کالج فار ویمن تھا۔پھر انٹرمیڈیٹ کا لفظ ختم کر دیا گیا ویسے آج بھی یہاں انٹرمیڈیٹ کی کلاسز ہوتی ہیں اور انٹر میڈیٹ سیکشن کی پرنسپل علیحدہ ہے۔
1925ء میں یہاں بی اے کی سطح پر تعلیم کا آغاز ہوا یہ ہال روڈ کسی زمانے میں ولایت کے کسی شہر کی سڑک نظر آتی تھی اس پر کھجور کے درخت بہت ہوا کرتےتھے یہ اتنی وسیع سڑک تھی کہ اس پر ڈبل ڈیکر کبھی چلا کرتی تھی خیر ہم نے یہاں ڈبل ڈیکر پرسفر بھی کیا ہے اس سڑک پر تاریخی کتھیڈرل چرچ کا ایک پچھلا دروازہ اور ایک مزار بھی ہے یہ مزار کا دروازہ ہے 1985ء تک یہاں کئی ہندوئوں کے مکانات بھی تھے ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کچھ تو تباہ ہو گیا یہ ہال روڈ جہاں صرف انیس بیس دکانیں ریڈیو سیٹ، گراموفون، ریڈیو گرام کی ہوا کرتی تھیں اب یہ ساری ہال روڈ موبائل فونوں کی دکانوں میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ہال روڈ کے گندے نالے تک لوگوں نے دکانیں اور مارکیٹیں ڈال لی ہیں یہ وہ ہال روڈ نہیں جو لاہور کے باسیوں نے کبھی دیکھی تھی۔
لاہور کالج کی طالبات کبھی کبھار شام کو اس ہال روڈ پر سیر کرتے کرتے ریگل چوک پر آیا کرتی تھیں وہاں سے کھانے پینے کی اشیاء لیا کرتی تھیں یعنی یہ سڑک سیرگاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی۔ اس زمانے میں بیڈن روڈ پر جاوا انٹرنیشنل ڈیپارٹمینٹل اسٹور سے یہ طالبات خریداری کیا کرتی تھیں جاوا انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹل اسٹور اب تو کب کا ختم ہو چکا ہے۔ 1940ءمیں لاہور کالج میں پوسٹ گریجویٹ یعنی ایم اے کی کلاسز شروع کی گئیں 1949ء میں بی اے آنرز شروع کرنے والا یہ طالبات کا لاہور میں پہلا کالج بن گیا پہلے سات برسوں میں اس کالج میں طالبات کی تعداد 60رہی جس میں سے 25طالبات ہوسٹل میں رہتی تھیں جبکہ اساتذہ کی تعداد صرف 13تھی۔ 1948ء میں اس کالج میں طالبات کی تعداد 292ہو گئی اگرچہ 1947ء میں قیام پاکستان کے دوران کچھ دیر کے لئے کالج میں کلاسوں کا سلسلہ منقطع ہوا مگر کالج کی تدریسی سرگرمیوں پر کچھ خاص اثر نہیں ہوا۔
1951ءمیں کالج کی پرنسپل مسز ہنری لال کی کوششوں سے کالج جیل روڈ پر یعنی موجودہ عمارت جو کہ سرگنگا رام ہائی اسکول اور ٹیچرز ٹریننگ سنٹر کے نام سے مشہور تھا وہاں منتقل کر دیا گیا اس وقت اس تاریخی عمارت میں مہاجرین کی ایک کثیر تعداد رہائش پذیرتھی لاہور میں آج بھی دو اہم جگہوں پر 1947ء کے مہاجرین بیٹھے ہوئے ہیں اور اس طرح مہاجرین کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں ان کا ذکر آئندہ کریں گے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ دونوں جگہیں دو مختلف تعلیمی اداروں کی ہیں بلکہ ایک جگہ تو کلاسیں گرائونڈ فلور پر ہوتی ہیں اور اوپر کی منزل میں مہاجر بیٹھے ہوئے ہیں پاکستان کو قائم 77برس ہونے کو ہیں مگر آج ان مہاجرین کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ (جاری ہے)