وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آگیا ہے، وقت کا ضیاع برداشت نہیں کروں گا۔ قرض کی نہیں اب سرمایہ کاری کی بات کروں گا۔
وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کا کہنا تھا کہ 16 ماہ میں ہماری کارکردگی پوری قوم نے دیکھی۔ ہم قوم کی خدمت کےلیے منتخب ہوئے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ 8 فروری کے الیکشن میں قوم نے منقسم مینڈیٹ دیا، 8 فروری کو مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا، سب کا احترام کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا تھا، ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا تو اس کے بعد معاملات زیادہ خراب نہیں ہوئے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو ظاہر ہے ہمیں یہ ذمہ داری سنبھالنی تھی، رمضان میں وفاقی حکومت نے 12 ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موبائل یوٹیلیٹی اسٹورز کو بھی دوبارہ فعال کر رہے ہیں، بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی اضافی رقم دی جارہی ہے۔
انکا کہنا تھا کہ سب سے بڑا چیلنج اس وقت مہنگائی ہے، مہنگائی کو کم کرنا ہمارا پہلا امتحان ہے۔
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ اشیاء کی قیمتوں میں کوئی خرابی برداشت نہیں کریں گے، کوشش ہے کہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کنٹرول کریں۔
انکا کہنا تھا کہ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے۔ کیا جواز ہے کہ غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کی مد میں سالانہ 500 ارب روپے چوری ہوتی ہے اس میں غریب آدمی کا کیا قصور ہے؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گیس بجلی کا گردشی قرض پانچ ہزار ارب روپے ہے، بجلی سرپلس ہے، سوچا ہی نہیں گیا کہ اس کو منافع بخش کیسے بنایا جائے۔ آج ہم اس نہج پر پہنچ گئے کہ تنخواہیں بھی ادھار سے دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کل بات ہو رہی تھی کہ رٹیلرز پر ٹیکس لگانا چاہیے، عالمی ادارے رٹیلرز پر ٹیکس لگانے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ رٹیلرز کی بات تو بعد میں آتی ہے، ہول سیلر کہاں گیا؟ دکاندار جو مشکل سے روزی کمارہا ہے اس کو پکڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اور یہ ہمارا پہلا امتحان ہے، اس کےلیے سب متحرک ہوجائیں۔ صوبوں کے ساتھ مل کر اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کریں گے۔