• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں انتخابات کا عمل پُرامن ماحول میں پایۂ تکمیل تک پہنچا۔ شہباز شریف نے بطور وزیراعظم اور آصف علی زرداری نے بطور صدر مملکت اپنے عہدوں کا حلف اُٹھا لیا ہے۔ اِن سطور کی اشاعت تک کابینہ کے نامزد ارکان بھی اپنے عہدوں کا حلف اُٹھا چکے ہونگے۔ جس کے ساتھ نئی حکومت کی تشکیل مکمل ہو جائیگی۔ لیکن سوائے دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ملک کی باقی ماندہ چھوٹی بڑی تقریباً تمام جماعتوں کا اصرار ہے کہ اس الیکشن میں انکا مینڈیٹ دھاندلی کے ذریعے چھینا گیا ہے اور وہ الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل پی ٹی آئی کو صوبہ خیبرپختونخوا میں الیکشن کے نتائج پر کوئی اعتراض نہیں ہے وہاں ان کی حکومت بھی قائم ہو چکی ہے۔ لیکن پنجاب اور دیگر صوبوں میں وہ انتخابی نتائج پر سراپا احتجاج ہیں۔ پی ٹی آئی نے برملا کہا ہے کہ وہ اس حکومت کو کسی صورت چلنے نہیں دے گی۔ اس جماعت نے آئی ایم ایف کو خط بھیج کر بھی یہی مطالبہ کیا کہ کم از کم 30 حلقوں کے نتائج کی تحقیقات کرائی جائیں وہ الگ بات کہ آئی ایم ایف نے اس خط کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ آئی ایم ایف کو لکھے گئے اس خط کا مقصد تو پورا نہیں ہو سکا البتہ اس سے اندرون و بیرون ملک پاکستانی معیشت کی دگرگوں صورتحال سے متعلق منفی تاثر ضرور پیدا ہوا۔جہاں تک انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا تعلق ہے تو اس بارے میں دو مختلف آرا ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ انتخابات بالکل شفاف طریقے سے ہوئے ہیں۔ تمام جماعتوں کو یکساں موقع فراہم کیا گیا اسی لئے صوبہ کے پی میں اس جماعت کی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے علاوہ پنجاب اور قومی اسمبلی میں اس جماعت کے اُمیدوار خاصی تعداد میں منتخب ہو کر موجود ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں اس جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز نے وزیراعظم اور صدر کے انتخابات میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ ان دو عہدوں کیلئے اپنے اُمیدوار بھی کھڑے کئے جنہوں نے ان دو عہدوں کیلئے مقابلوں میں حصہ بھی لیا۔ دُوسری طرف پی ٹی آئی اور دیگر ہم خیال جماعتوں کا مؤقف برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو صوبہ کے پی میں عوام نے بھرپور مینڈیٹ دیا ہے اور جماعت کے کارکنوں اور ووٹرز نے اپنے ووٹوں پر پہرہ دیا۔ اسلئے وہاں نتائج میں گڑبڑ نہیں ہو سکی۔ جبکہ اسی صوبہ میں جمعیت علمائے اسلام کو توقع کے خلاف شکست ہوئی جس کو بدقسمتی سے یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت قرار دیتی ہے ۔ یہ تو آئینی اور قانونی ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ آخر اس قضیے کا حل کون اور کیسے نکلے گا۔ کیا اس کا حتمی فیصلہ عدالت عظمیٰ کے ذریعے ہوگا یا پی ٹی آئی کے 30حلقوں کے نتائج پر اعتراض کو تسلیم کرتے ہوئے ان حلقوں کے نتائج کی تحقیقات ہوں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو دیگر معترض جماعتوں کے نتائج کا کیا ہوگا۔ جن جماعتوں کے اعتراضات ہیں اگر ان سب کو دیکھا جائے تو کیا پھر ملک میں دوبارہ الیکشن ہوں گے جو موجودہ حالات میں ممکن ہی نہیں نظر آتے کیونکہ حالیہ الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ حکومت مخالف جماعتوں نے عیدالفطر کے بعد احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس کی ریہرسل پی ٹی آئی اور سندھ سے تعلق رکھنے والی بعض قوم پرست اور دیگر جماعتیں وقتاً فوقتاً کر رہی ہیں۔ گزشتہ روز یعنی اتوار کو پی ٹی آئی نے پنجاب، کے پی اور کراچی میں احتجاج کیا۔ پنجاب میں بالخصوص لاہور میں اس جماعت کے بعض رہنمائوں اور کچھ کارکنوں کو پولیس نے گرفتار بھی کیا جن میں سے بعض کو کچھ دیر بعد رہا بھی کیا گیا۔ احتجاج ہر پاکستانی کا آئینی حق ہے۔ اتوار کے روز پی ٹی آئی کی طرف سے ہونے والے احتجاج کو روکنا اور اس موقع پر بلاجواز گرفتاریاں کسی صورت جائز عمل نہیں تھا۔ اگر وہ کوئی توڑ پھوڑ کرتے، سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تو ان کو روکنا لازم تھا لیکن صرف کسی مقام پر جمع ہو کر جلوس نکال کر یا نعرے بازی کرنے سے روکنا اور گرفتاریاں کرنا ناپسندیدہ طریقہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے باوجود ملک بے یقینی اور سرمایہ کار تذبذب کا شکار ہیں جو کہ اچھی علامت نہیں ہے۔ اس وقت ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ قوم یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ اگر 9 مئی کے واقعات میں جن کو ملوث قرار دیا گیا تھا دو چار کے علاوہ پی ٹی آئی کے تمام گرفتار اور روپوش رہنما اور اہم کارکنان رہا کر دیئے گئے وہ ضمانت پر یا بغیر ضمانت کے باہر آ گئے ہیں ان میں سے اکثریت نے الیکشن میں حصہ بھی لیا، ان کو الیکشن میں حصہ لینے کا اہل قرار دیا گیا تھا اور ان میں سے اکثر ایم این اے اور ایم پی اے بھی منتخب ہوئے۔ ایک صوبہ میں ان میں سے وزیراعلیٰ، وزیر اور مشیر بھی مقرر کئے گئے ہیں تو پھر 9 مئی کے واقعات کے ملزمان کون تھے؟ اور اگر ان واقعات میں ملوث قرار رہنے والے رہا ہو کر مذکورہ عہدوں اور اسمبلیوں تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر صرف احتجاج کرنے والوں پر تشدد یا ان کی وقتی گرفتاریاں چہ معنی دارد؟ ۔ملک میں بے لگام مہنگائی کو روکنے کی بھی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ رمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی مہنگائی میں بے تحاشا اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے دُوسرا پروگرام لینے سے قبل ہی ان کی شرائط سامنے آنے پر اس سال مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انجام کار کیا ہوگا۔

تازہ ترین