اسلام آباد ہائیکورٹ نے 4 وکلا کو آج بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کرانے کا حکم دے دیا۔
پی ٹی آئی کے رہنما اور وکیل شیر افضل مروت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کہا ہے کہ ہم نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے مکینزم طے کرلیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کیخلاف کیس کی وقفے کے بعد سماعت ہوئی۔
اس موقع پر شیر افضل مروت نے کہا کہ نئے لوگوں کے حوالے سے ایس او پیز بنائیں گے اور پہلے بانی پی ٹی آئی سے اجازت لیں گے۔
عدالت نے شیر افضل مروت کو فوکل پرسن مقرر کرنے کی ہدایت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ تمام درخواستیں پہلے فوکل پرسن کے پاس جائیں، ہم یہ پٹیشن زیر التوا رکھ رہے ہیں، آپ ایس او پیز بنا کر جمع کرا دیں، چیزیں مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ ہم 4 لوگ آج اور منگل کو دوبارہ ملاقات کیلئے جائیں گے۔
عدالت کا کہنا تھا ہم آپ کو یہ نہیں کہہ رہے کہ سب لوگوں کو جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دیں۔
جیل سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ مسئلہ اس وجہ سے آرہا ہےکہ دنیا جہاں کا ہر آدمی کہہ رہا ہےکہ وہ وکیل ہے اورملاقات کرنی ہے، 20 وکیل سماعت پر آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اندر جانا ہے، بانی پی ٹی آئی سمیت تمام قیدیوں سے ملاقات پر پابندی کیلئے محکمہ داخلہ کی ہدایات ہیں۔
جسٹس ارباب طاہر نے کہا کہ آپ کو بانی پی ٹی آئی نے جن 6 وکلا کے نام دیے صرف وہی ملاقات کریں گے، وہ آپ کو ہدایات نہیں دے سکتے، یہ آپ کی صوابدید ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ عدالت وکلا کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں صرف کیسز پر بات کرنے کی اجازت دے، جو وکلا ارکان اسمبلی بھی منتخب ہوئے وہ ملاقات میں سیاسی امور پر گفتگو نہ کریں۔
اس موقع پر عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی کہ آپ اتنی گہرائی میں نہ جائیں اور آج 4 وکلا کی ملاقات کرائیں۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی سے جیل ملاقات کا میکنزم طے کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ دونوں فریق بیٹھ کر ایک میکنزم بنائیں اور آگاہ کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کے آرڈر کےخلاف درخواست پر سماعت کی۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اسد وڑائچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو کر کہا کہ ملاقاتوں کیلئے کئی سو درخواستیں آرہی ہیں۔
عدالت میں وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی عدالت میں یہ طے ہوگیا ہے۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اسد وڑائچ نے کہا کہ آرڈر یہ ہوا تھا کہ وکلا کے علاوہ 6 افراد کو ملنے کی اجازت ہوگی، میرے پاس 7 ہزار قیدی ہیں، عدالت نے یومیہ 6 افراد کو ملنے کی اجازت دی جو ہمارے لیے ممکن نہیں۔
جسٹس ارباب طاہر نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے کہا کہ آپ روز کسی نئے اعتراض کے ساتھ آجاتے ہیں، ان آرڈرز کے فیلڈ میں ہوتے ہوئے آپ نے دیکھنا ہے۔
جسٹس ارباب طاہر نے سوال کیا کہ کیا آپ ان آرڈرز کی خلاف ورزی چاہ رہے ہیں؟ کون سے ایسے لوگ ہیں جن کو کوئی نہیں جانتا؟
جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ شیر افضل مروت، قومی اسمبلی کے ممبران، سینیٹرز، آپ ان کو چیک کریں، عدالتی حکم پر عمل نہیں کریں گے تو کیوں نا توہین عدالت کی کارروائی ہو؟۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے کہا کہ میں کورٹ کے حکم پر بھی عمل کرتا ہوں، یہ محکمہ داخلہ پنجاب کا نوٹیفکیشن بھی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کی شرائط پر طے کیا تھا کہ یہ کب کب ملیں گے، پہلے ہی آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں ہیں۔