• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ زمانے گئے جب لوگ ایک دوسرے کو میراثیوں ،پٹھانوں ، سکھوں اور عورتوں کے لطیفے بلا روک ٹوک سناتے تھے ۔اب ایسی آزادی نہیں رہی ۔اب تو لفظ میراثی بولنے سے پہلے بھی دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں دوسرا بندہ آپ کو دقیانوسی نہ سمجھ بیٹھے ۔ اسی طرح محفل میں سکھوں یا پشتونوں کے لطیفے سنانے سے پہلے بھی نظر دوڑانی پڑتی ہے کہ کہیں کوئی ایسا شخص تو نہیں بیٹھاجو بعد میں نسل پرستی کا دعویٰ دائر کردے۔عورتوں کے متعلق تو خیر لطیفہ گوئی کا اب سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ،ادھر آپ نے عورتوں پر کوئی فقرہ کسا،ادھر آپ پر فتویٰ صادر ہوجائے گا کہ آپ نے ’Sexist Remarks‘ دیے ہیں۔میں نے قصداً یہاں ایل جی بی ٹی کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اِن کے بارے میں لطیفےسنانا پہلے جتنا آسان تھا اب اتنا ہی مشکل ہے ،ہمارے ملک کی تو خیر ہے لیکن مغربی ممالک میں ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتاہے کہ ایل جی بی ٹی پر جملہ کستے ہوئے اقوام متحدہ کے کسی میثاق کی خلاف ورزی نہ ہوجائے۔ اصولاً اِن حالات میں مزاح تخلیق کرنا مشکل ہوجانا چاہیے مگر آفرین ہے سوشل میڈیا کے مزاح نگاروں پر جو روزانہ ایسے نت نئے چٹکلے (میمز) بناتے ہیں کہ بندہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ایل جی بی ٹی کو ہی لے لیں، بظاہر جدید دور میں یہ ایک ’نوگو ایریا‘ ہے مگر اِس پر بھی یار لوگوں نے ایسی ایسی زبردست میمز بنائی ہیں کہ جن سے کسی کی تضحیک کا پہلو بھی نہیں نکلتا اور مزاح بھی بھرپور ہوتا ہے ۔ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

’’اے میری غیر بائینری اولاد!

جی ،میرے غیر صنفی والد!

تم کو بتانا تھا کہ رات کا کھانا تیار ہے اگرکھانا چاہو تو ....مگر بے شک اِس کے لیے تمہاری پیشگی رضامندی ضرور ی ہے ۔

آہا....مگر میں رضامند نہیں ، ابھی ڈنر کے لیے راضی نہیں ۔

اچھی بات ہے مگر شاید ایک آدھ گھنٹے میں تمہارا ارادہ بدل جائے اور تم کھانے کے لیے آمادہ ہوجاؤ، اِس دوران تمہارا دوسرا غیر صنفی والد لاؤنج میں بیٹھ کر ذرا سستا لےگا۔کہیں یہ بات تمہیں گراں تو نہیں گزری !

آں، میں نہیں جانتا کہ یہ بات مجھے گراں گزری یا نہیں ، سچ پوچھیں تو مجھے نہیں پتا کہ میں کیا محسوس کرتا ہوں۔

یقین کرو ، مجھے بھی نہیں پتا ،جانو!

جانو!!! اوہ میرے خدایا کیا تم نے مجھے جانو کہا؟

اوہ میرے خدا، مجھے معاف کردو۔

یہ تو مجھے ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔

پلیز، اِس کے بارے میں ٹویٹ مت کرنا۔

وہ تو میں نے کر بھی دی۔

چلو، پھر تو میرا کیرئیر برباد ہوگیا۔

ہاں تو آپ کو بات کرنے سے پہلے بیس مرتبہ سوچنا چاہیے تھا۔

ہم سڑک پر آ جائیں گے۔

مجھے اِس کی پروا نہیں کیونکہ قطع نظر اِس بات سے کہ تم لوگ میری جسمانی راحت کا کس قدر خیال رکھتے ہو میرے جذبات زیادہ اہم ہیں ۔اوکے، ٹھیک ہے، اب میں لاؤنج میں جاکر رونے لگا ہوں۔مجھے تم سے محبت ہے مگر تمہیں جواباً مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔

میں کہوں گا بھی نہیں ۔‘‘

میں نے جتنی مرتبہ بھی یہ کلپ دیکھا ہےتخلیق کار کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکا،اِس میں جس طرح غیر محسوس طریقے سے جدید دور کی نزاکتوں پر چوٹ کی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔مجھے یہ خوش گمانی ہے کہ میں اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حساسیت کا خیال رکھتا ہوں، ایل جی بی ٹی افراد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ Non gender specific یا Non binary لوگ شاید اِس کلپ کو دیکھ کر محظوظ نہ ہوں اور سمجھیں کہ اِس سے اُن کی دل آزاری ہوئی ہے۔تاہم اپنی تمام تر مثبت سوچ کے باوجود میں خود کو ایل جی بی ٹی کی اِس ’انتہاپسندانہ اپروچ‘ کے ساتھ متفق نہیں پاتا ،مجھے لگتا ہے کہ اِس ضمن میں وہ مضحکہ خیز حد تک آگے جا چکے ہیں ۔

پئیرس مارگن ایک برطانوی صحافی ہے، اُس نے ایسے ہی ایک خاندان کا انٹرویو کیا جہاں بچوں کی پرورش اِس طریقے سے کی جا رہی ہے کہ جس میں اُن کی جنس کا اظہار ہی نہ ہوپائے۔انٹرویو دینے والی/والا شخص، جس کا نام ہم ایکس تصور کر لیتےہیں، خود کو غیر بائینری کہتا ہےاور بتاتا ہے کہ وہ خود کو مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہیں کرتا۔ گھر میں اسے ملا کر کُل تین افراد ہیں اور تینوں ہی غیر بائینری ہیں ، قانونی طور پر ایکس کی شادی اُن دونوں میں سے ایک کے ساتھ ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ وہ ’ریلیشن شپ ‘ میں ہے۔اِن تینوں کے دو بچے ہیں جن کی پیدائش پر جنس تو معلوم ہے مگر ابھی وہ اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں تاوقتیکہ بچے بڑے ہو کر خود اِس بات کی شناخت نہ کرلیں کہ وہ کیا ہیں ۔میں یہ انٹرویو دیکھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گیا ،بندہ پوچھے کہ اگر تم سب کو اپنی جنس کا علم ہی نہیں یا تم خود کو مرد یا عورت میں سے کچھ بھی نہیں سمجھتے تو پھر بچے کیا آسمان سے ٹپک رہے ہیں ؟اور پھر اِن بچوں کاکیا کیا قصور ہےجنہیں تم اینٹی جینڈر کہہ کر پکار رہے ہو حالانکہ تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ اِن کی جنس کیا ہے ۔انٹرویو کے دوران جب ایکس سے یہ سوال پوچھا گیا تو اُس نے اعتراف کیا کہ بچوں کی اناٹومی سے اُن کی جنس تو معلوم ہے مگر چونکہ ابھی وہ بچے ہیں لہٰذا جب تک وہ بڑے نہ ہوجائیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی جنسی شناخت کیسے کریں گے ۔

ایک دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ اِس لیے عجیب لگ رہا ہے کیونکہ ہمارے لیے یہ باتیں نئی ہیں ، جس طرح کسی زمانے میں ہم جنس پرستی کو ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ لوگوں میں یہ شعور آیا کہ اِس میں ہم جنس پرستوں کا کوئی قصور نہیں اور یوں اُن کے خلاف نفرت کم ہوئی ،اسی طرح جنسی شناخت کے اظہار کےیہ نت نئے طریقے بھی دھیرے دھیرے ہمیں نارمل لگنے لگیں گے۔ممکن ہے ایسا ہوجائے،لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اِس انفرادیت کا اختتام کیا ہوگا؟ کیا اِس کی کوئی حدود بھی متعین کی جائیں گی ؟اور اگر حدود متعین کرنا انسان کی آزادی میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے تو پھر ہمیں اُس دن کے لیے تیار رہنا چاہیے جب انسان خود کو کتوں کے طور پر شناخت کریں گے اور ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے کہیں گے کہ ہمیں he یا she کہنے کی بجائے it کہہ کر بلایا جائے ۔ جن لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ برلن میں انسانوں کے ایک گروہ نے یہ کام شروع بھی کر دیا ہے، یعنی وہ اپنی شناخت کتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

تازہ ترین