پوری دنیا میں مارچ 2024 میں چین کے سالانہ دو اہم اجلاسوںنیشنل پیپلز کانگریس اور چائنہ پیپلز کنسلٹیٹو کانفرنس کا خاصہ چرچہ رہا ۔ مغرب اور امریکہ سمیت عالمی دنیا نے ان دو اجلاسوں میں ہونے والی نئی معاشی، سیاسی اور سفارتکاری کی ترجیحات پر نظریں رکھیں ۔دنیا میں ان اجلاسوں کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور مستقبل کی عظیم معاشی طاقت ہے ۔ چین کی معاشی پالیسیاں اور منصوبے ترقی یافتہ او ر ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں اور اقتصادی ترقی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں 2024کے حوالے سے نئے معاشی اہداف اور نئی معاشی تنظیم کے خدو خال سامنے آئے ،اس میں حکومت کی ورک رپورٹ بھی پیش کی گئی جس سے دنیا کو چین کے نظام حکومت سے آگاہی ملی ۔چین کے کثیر الجہتی ترقی کے نئے تقاضوں کی ڈاکٹرائن کے بارے میں پتہ چلا ۔ اس دفعہ 2024کے دونوں اجلاسوں میں چین کے قانون سازوںاور مشیروںنے روایتی ترقیاتی ماڈل کے بدلے نئے معیار کی پیداواری قوتوں کا بیانیہ جنم دے کر عالمی سطح پر تجسس پیدا کیا۔ چین مستقبل میں جدید صنعتی نظام اور جدید اقتصادی فیکٹریوں کو تشکیل دینا چاہتا ہے جس سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز، جدید ترین بگ ڈیٹا ،ہائی ٹیک گرین گروتھ،ہائیڈروجن پاور اور کوانٹم سائنس میں عملی عروج حاصل کیا جا سکے گا ۔ چینی معیشت کے نئے معاشی نظام میں منتقلی کے پلان کا سہرا ان دو اجلاسوں کے قانون سازوں ،مشیروں اور چینی قیادت شی جن پنگ کو جاتا ہے ۔ اس پلان کے تحت نئے معاشی پیرا ڈائم کی وسعت اور گہرائی کے مطابق نئےمعیار کی پیداواری قوت، جدید پیداواری صلاحیت کی نشاندہی کی گئی ہے جو روایتی معاشی نمو کے ماڈل اور پیداواری ترقی کے مراحل سے آزاد ہیں ۔ یہ اعلیٰ ٹیکنالوجی، اعلیٰ کارکردگی اور اعلیٰ معیار کی تشکیل اور نئے ترقیاتی فلسفےکو از سر نو تشکیل دیتا ہے ۔ چینی حکومت کی ورک رپورٹ2024میں 5فیصد شرح نمو کے ساتھ ترقی اور 12ملین نوکریوں اور دیگر اہم نکات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ میرے خیال میں چینی معیشت کی 2024کی تصویر کشی قابل فہم اور حقیقت پسندانہ ہے ۔ اس میں کسی طرح کی مبالغہ آرائی اور اعدادوشمار کی جادوگری نہیں کی گئی ۔ چینی معیشت 2024کا منظر نامہ ایک مستقل اور مستحکم شرح ترقی کی غمازی کرتا ہے ۔ چینی پالیسی ساز ، قانون دان ، سیاستدان، مشیر ان اور اعلیٰ قیادت ان اہداف کے بارے میں پر اعتماد اور مطمئن نظر آئے ۔ عالمی معیشت میں جاری تنزلی ،مہنگائی ،گلوبلائزیشن کے مقابلے میں پروٹیکشن ازم،بلاک پالیٹکس، سرد جنگ کی سوچ ،رول بیسڈ ورلڈ آرڈرکی بجائے سپر پاور کی انٹر سٹ بیسڈاوروِن وِن نظریے کی بجائے زیرو سَم گیم جیسے بڑے مسائل کی موجودگی میں چین کی معیشت کے اہداف اور اس کے حصول کے بارے میں 2024کے دو اجلاسوں میں چینی لیڈر شپ کی جدید اقتصادی تنظیم سازی کا پلان قابل دید ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ 2024 کی اس نئی معاشی تنظیم کے ذریعے چین اپنے 14ویںپانچ سالہ منصوبے کو بروقت پورا کرئے گا۔اس حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں شرکاء نے کہا کہ چین کی 2024کی ورک رپورٹ اور نئی معاشی تنظیم کا خاکہ مستقبل پر مبنی صنعتوں جیسے ہائیڈروجن پاور، جدید بائیو مینوفیکچرنگ، کمرشل اسپیس فلائٹ، کوانٹم ٹیکنالوجی اور لائف سائنسز کے باہمی تعامل میں مضمر ہے۔ دریں اثناء 2024کے اجلاسوںمیں پیش کردہ اقتصادی ترقی کی نئی تبدیلی ڈیجیٹل معیشت کی جدید ترقی کو فروغ دینے اور مصنوعی ذہانت پلس کے آغاز کی راہ ہموار کرے گی۔ یہ AIسے منسلک نئی توانائی کی گاڑیوں جیسی صنعتوں میں چین کی قائدانہ پوزیشن کو مستحکم اور بہتر بنائے گا۔شرکاء نے اس ضمن میں کہا ہے کہ چین اسٹریٹجک اہمیت کی مہارت رکھنے والے اہلکاروں کا ایک دستہ تیار کرنے اور فرسٹ کلاس سائنس دانوں اور جدید طرز کی معاشی ٹیموں کو تیار کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے شرکاء نے کہا کہ چین بنیادی تحقیقی صلاحیتوں کی شناخت کیلئے پلیٹ فارم تیار کرے گا، اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے انجینئروں اور انتہائی ہنر مند کارکنوں کو تربیت دے گا اور نوجوان سائنسدانوں اور انجینئروں کے لئے سہولتوں میں اضافہ کرے گا۔حالیہ برسوں میں، چین نے ٹیکنالوجی میں اہم سرمایہ کاری کی ہے جس کی عکاسی اس شعبے میں ہائی ٹیک ٹیلنٹ، معاہدوں اور پیٹنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہوتی ہے، 2023 میں 9لاکھ 50ہزار ٹیکنالوجی معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں تجارت کا حجم 6.15 ٹریلین یوآن تک پہنچ گیا جو سال بہ سال 28.6 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ مزید برآںایجادات کی تعداد 9لاکھ21ہزار تک پہنچ گئی جس میں سال بہ سال 15.3فیصد اضافہ ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے شرکاء نے سال 2024 کے دو نوںاجلاسوں میں زیر بحث آنے والے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی جن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی پالیسیوں سے لے کر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے ماحول دوست ترقی، سماجی شعبے پر توجہ، تنخواہوں،پنشن اور گھریلو طلب کے شعبوں میں بہتری لاکر پائیدار ترقی کے لئے جدید بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہیں۔ انہوںنے کہا کہ چینی کمپنیاں اب اپنی عالمی مسابقت کو یقینی بنانے کے لئے تحقیق اور ترقی (آر اینڈ ڈی)میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔انہوںنے چین کی خارجہ پالیسی اور علاقائی و عالمی مسائل پر اس کے نقطہ نظر کو تشکیل دینے میں دونوں اجلاسوں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی جس میںچین نے مشترکہ تقدیر کی کمیونٹی کی تعمیر کے لئے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹواورگلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کے اقدامات پر عملی پیشرفت کو مزید تیز تر کرنے کا عزم کیا ہے ۔