وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے بھر کی جیلوں میں قیدیوں کی سزا میں 3 ماہ کی معافی کا اعلان کر دیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور کی سینٹرل جیل کوٹ لکھپت کا دورہ کیا اور قیدی خواتین کے ساتھ روزہ افطار کیا۔
اس موقع پر انہوں نے جیل کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا، اس سیل کا بھی دورہ کیا جہاں ان کے والد نواز شریف قید رہے، انہوں نے قیدیوں کے لیے کھانے کا معیار بھی چیک کیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے 20 بستروں پر مشتمل اسپتال اور قیدیوں کے لیے ویڈیو کال کی سہولت کا بھی افتتاح کیا۔
سینٹرل جیل لاہور دنیا بھر میں قیدیوں کے لیے ویڈیو کال کی سہولت دینے والی پہلی جیل ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب جیل میں گزرے وقت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور کہا کہ کچھ لوگ اپنی غلطی اور کچھ حالات کی وجہ سے جیل پہنچ جاتے ہیں، نظامِ عدل میں کمزوریوں کی وجہ سے بے گناہوں کو بھی جیل کاٹنا پڑتی ہے، جیل کے نظام میں بہتری اور قیدیوں کے لیے ممکنہ آسانیاں ضرور لائیں گے۔
پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے جیل میں اپنی قید کے دوران ڈیوٹی پر متعین جیل اسٹاف سے ملاقات بھی کی۔
ان کی جانب سے رہائی پانے والے مرد اور خواتین قیدیوں کو 15، 15 ہزار روپے اور کپڑے جبکہ خواتین کو چوڑیاں بھی دی گئیں۔
مریم نواز نے سینٹرل جیل کوٹ لکھپت میں افطار ڈنر کی تقریب سے خطاب میں صوبے بھر میں قیدیوں کے لیے 3 ماہ کی سزا کی معافی اور 155 قیدیوں کی رہائی کا اعلان بھی کیا۔
مریم نواز نے کہا کہ آج سینٹرل جیل آتے ہوئے خود قید میں گزارا ہوا وقت یاد کر رہی تھی، سزائے موت کی چکی میں بند تھی، کڑے وقت کا سامنا کیا، میرے والد بھی اسی جیل میں بند تھے مگر مجھے ان سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی، ہفتے میں ایک بار ملنے دیا جاتا تھا، جیل میں مجھے کسی نے بتایا کہ آپ کے والد کی طبیعت خراب ہے اور انہیں اسپتال لے کر جا رہے ہیں، وہ آزمائش کا وقت تھا، میں اپیل کے انتظار میں تھی کہ پتہ چلا کہ جج 3 ہفتے کی چھٹی پر چلا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری کینسر کی مریضہ والدہ سے بات نہیں ہو سکتی تھی، گھڑی دیکھ دیکھ کر بچوں سے بات کیا کرتی تھی، 15 سالہ چھوٹی بیٹی کی بہت فکر تھی، اس نے بھی مشکل وقت گزارا ہے، والد کو عدالت میں والدہ کی طبیعت کی خرابی کا بتایا، کہنے کے باوجود کسی نے والدہ سے بات نہ کرائی، جیل کے مشکل وقت کو صبر و شکر سے اچھی طرح گزارا، جیل میں 24 گھنٹے انسان کو سوچنے اور غور و فکر کا وقت ملتا ہے، جیل کے نظام میں بہتری اور قیدیوں کے لیے ممکنہ آسانیاں ضرور لائیں گے۔