• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت سے لوگ بہت سی باتوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ لوگ اڑتی چڑیا کے پرگن لیتے ہیں۔ ایسا عمیق ہنر صرف نصیب والوں کے حصے میں آتا ہے۔ کچھ لوگ کچھ چیزوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ لوگ جانتے ہیں کہ گھوڑے کی چار ٹانگیں کیوں ہوتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گھوڑے کی چار ٹانگیں اس لیے ہوتی ہیں کہ جو بگھی وہ کھینچتے ہیں، اس بگھی کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں آئن اسٹائنEinsteinنے چار پہیوں والی بگھی ایجاد نہیں کی تھی، تب گھوڑے دوپہیوں والے ٹانگے کھینچا کرتے تھے۔اس وقت گھوڑوں کی دوٹانگیں ہوا کرتی تھیں۔ چار پہیوں والی بگھی ایجاد ہونے کے بعد گھوڑوں کی دو اور ٹانگیں نکل آئیںاور چار ٹانگوں والے گھوڑے چار پہیوں والی بگھی میں جڑنے لگے۔ ایسی انوکھی آگاہی مجھے سیانوں نے دی ہے، جو بہت سی چیزوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ سیانوں نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں نہیں ہوتی۔ ایجاد ضرورت کی ماں ہوتی ہے۔

سنی سنائی باتیں دہراتے ہوئے عرض کرچکا ہوں کہ بہت سے لوگ بہت کچھ جانتے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ کچھ جانتےہیں ۔ معاشرے کے سکھ دکھ کی کھوج لگانے والوں کا فرمانا ہے کہ ایسے لوگ جو کچھ نہیں جانتے ، وہ خوش رہتے ہیں۔ کھل کھلا کرہنس سکتے ہیں۔ ان کی بلا سے ملک کا شہنشاہ کون لگنے والا ہے اور کون نہیں لگنے والا ہے۔ اس نوعیت کے فضول بحث مباحثوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اطمینان سے سو سکتے ہیں۔ اچھے اچھے خواب دیکھتے ہیں۔ خوابوں میں پریوں سے اٹکھیلیاں کرتے ہیں۔ جنوں کو ٹھینگا دکھاتے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہے، کسی کو انگوٹھا دکھانے کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ لوگ مرنے مارنے پر اتر آتے تھے۔ اب دنیا سمجھدار ہوگئی ہے۔ جب آپ جذباتی ہوجاتے ہیں اور آپ کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں، تب سامعین آپ کو ٹھینگا دکھاتے ہیں اور مقرر ارشاد کے نعرے لگاتے ہیں۔ انگریز جب آپ کو ٹھینگا دکھاتا ہے تب وہ اشاروں میں کہہ رہاہوتا ہے، WELL DONE اور دیسی آدمی جب آپ کو انگوٹھا دکھاتا ہےتب وہ اشاروں میں کہہ رہا ہوتا ہے ،’’ کیا بات ہے‘‘۔ واہ بھئی واہ ۔’’ سبحان اللہ‘‘۔

ٹھینگا یا انگوٹھا دکھانا ہمارے کلچر کا اب اٹوٹ انگ ہوچکا ہے۔ کسی کو داد دینے کیلئے ہم اسے انگوٹھا دکھاتے ہیں۔ کسی کو برا نہیں لگتا۔ البتہ گائوں اور دیہات میں بسنے والوں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔انکو شہروں کی آلودہ ہوا لگ چکی ہے۔ ماضی قریب میں، میں نے نہیں سنا کہ کسی نے کسی کو ٹھینگا دکھایا ہو اور وہ ماراگیا ہو۔ ویسے بھی پینڈو سے شہری بابو بننے کیلئے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔ انگریز نے ہندوستان کے بٹوارے کیلئے ہم مسلمانوں سے بڑی قربانی مانگی تھی۔ انگریز نے واضح کردیا تھا کہ جب تک پانچ دس لاکھ مسلمان ہمارے سامنے اپنی گردن نہیں کٹوائیں گے، انگریز تب تک ہندوستان کا بٹوارہ نہیں کر ینگے۔ ہمارے پانچ سے دس لاکھ آبائواجداد نے اپنا سر قربان کردیا۔ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دیا اور انگریز کو ہندوستان کے بٹوارے پر مجبور کردیا۔ ہم جو کچھ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے،آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قائد اعظم نے کیوں کہا تھا کہ میں نے بغیر گولی چلائے اور خون کا ایک قطرہ بہائے مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ ملک پاکستان حاصل کرلیا؟ ہمارے آبائو اجداد کی بات درست ہے یا کہ قائد اعظم کی بات درست ہے، اس بات کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ ہاں، بٹوارے کے فیصلے کے بعد برصغیر میں خوفناک فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان ہیبت ناک فسادات کی جھلک ہم نے کراچی میں بھی دیکھی تھی جب بندر روڈ، برنس روڈ، فرئیر روڈ، سولجربازار میں صدیوں سے آباد فیملیز کو تخت وتاراج کردیا گیاتھا۔ ان عالیشان فلیٹس میں زیادہ تر ہندو اور کچھ کچھ سکھوں کی فیملیز رہتی تھیں۔ کراچی میں خون کی ندیاں نہیں بہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیشمار ہندوئوں نے میونسپل کارپوریشن کے سامنے سوامی نارائن مندر میں آکر پناہ لی تھی۔ اندرون سندھ سے مقروض سرداروں، جاگیرداروں، وڈیروں، انکے کارندوں نےہندوئوں کو سندھ چھوڑ کرجانے پر مجبور کیا۔ ان کو یقین تھا کہ ہندو ساہوکاروں کے چلے جانے کے بعد ان کی ہندوئوں کے پاس گروی پڑی ہوئی زمینیں ان کو واپس مل جائینگی اور قرض بھی چکتا کرنا نہیں پڑیگا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ متروکہ جائیدادوں کے بارے میں بنے ہوئے قوانین کے مطابق ہندوئوں کی اپنی املاک معہ زرعی زمینوں کے آنے والے مہاجرین میں تقسیم کی جائیں گی۔ اس قانون کے مطابق ہندوئوں کے پاس گروی پڑی ہوئی زمین سرداروں، زمینداروں، وڈیروں کو واپس نہیں کی جائیں گی۔ گروی زمینیں بھی مہاجروں میں بانٹ دی جائینگی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مہاجر زمینداری سے نابلد تھے۔ انہوں نے کلیم میں ملی ہوئی زرعی زمین اونے پونے بھائو میں انہی سرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کو بیچ دی اور کراچی کا رخ کیا۔ہندوئوں کی اپنی زمین اور وڈیروں کی انکے پاس گروی پڑی ہوئی زمین الاٹمنٹ میں مہاجروں کو دی گئی تھیں۔ مگر آج آپ کو ایک بھی مہاجر سردار یا زمیندار سندھ میں دکھائی نہیں دے گا۔

اس نوعیت کے ان گنت قصے کہانیاں دشمنوں نے ہمیں سنائے ہیں۔ اور سنی سنائی باتیں آج میں آپ کو سنارہاہوں۔ ہماری اپنی سمجھ بوجھ توصفر ہے۔ ہمیں کیا پتہ کہ انیس سوسینتالیس میں کیا ہوا تھا۔

تازہ ترین