خوش آمدید ، مردٍ حُر سردار آصف علی زرداری پاکستان کے 14 ویں صدر منتخب ہوئے ہیں ، انہیں یہ منصب بہت بہت مبارک ہو ۔ موصوف ملکی تاریخ کی پہلی سول شخصیت ہیں جنہیں ایک بار نہیں بلکہ دو بار صدر مملکت پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ۔ صدارت ہی فیڈریشن کا سب سے بڑا اور اہم عہدہ ہے اور عہدٍ موجود میں صدر زرداری ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو باقی صاحبانٍ سیاست میں سب سے بڑھ کر اس منصب کے مستحق سمجھے جاتے ہیں ، اگر ہم عصری تقاضوں اور زمینی حقائق کا بغور جائزہ لے کر ذہانت و دیانت کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو اس طرز و لیول کا لیڈر کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا سوائے صدر زرداری کے جو سب صوبوں کو جوڑنے والے ہیں ۔ میں بسم اللہ کروں جیسے شہید بے نظیر بی بی رانی چاروں صوبوں کی زنجیر مانی جاتی تھیں اسی طرح آج ان کے بہادر شوہر بھی نہ صرف چاروں صوبوں کو بلکہ کشمیر و گلگت بلتستان تک سب کو ساتھ ملانے ساتھ چلانے اور سیاست و جمہوریت کی طاقت سے ملک کو سنوارنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔ آج پاکستان کو صدر زرداری ایسے وضع دار و باوقار ، اخوت و ایثار کے جذبوں سے سرشار ، ذہین و صاحب رائے اور مصلحت پسند لیڈرز کی اشد ضرورت ہے جو ہمیشہ مثبت سوچتے ہیں ، محبت و ادب و اخلاقیات سے بولتے ہیں اور خلوص و حکمت و دانشمندی سے فیصلے کرتے ہیں اور پھر بطریق احسن کوئی قدم اُٹھاتے ہیں۔ میں نے شہید بی بی کےبارے میں کہا تھا کہ :
اپنے خون سے امر کیا ہے حق کی تاریخ کو تُو نے
ضیا ظُلمت زائل ہوئی راستہ پایا خُوشبو نے
کسی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہی اس کی اہمیت و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے ، شہید بے نظیر رانی کے جانے کے بعد ملک کو اس لیول کا لیڈر ملا ہی نہیں اور شاید ہمیں اس چیز کی بھی کوئی پہچان اور قدر نہیں ہے کہ آصف زرداری عصرٍ حاضر کی سیاست کے تجربہ کار و سربلند ، مدبر و دبنگ لیڈر ہیں جو جمہوریت کے استحکام اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی خاطر سب کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔ حالانکہ ان سے زیادہ مشکل حالات و واقعات و معاملات پاکستان کی سیاست میں کسی اور نے نہیں دیکھے ہوں گے انہوں نے 13 سال جیلیں کاٹی ہیں ماریں کھائی ہیں ، سیاست کے دشوار و پُرخار کٹھن پتھریلے راستوں سے گزرے ہیں، پرانی بات ہے میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ آصف زرداری نے بے نظیر بھٹو کا شوہر ہونے کی سزا بہت بھگتی ہے اور اب ان کا یہ حق ہے کہ حق تلفیوں کا ازالہ ہو ۔ صحافت کے استاد مجید نظامی نے ”ایویں“ ہی نہیں انہیں مردٍ حُر کہا تھا ، میں سلام پیش کرتا ہوں سیاست کے اس سردار آصف کو جو ساری زندگی ستم رسیدہ ہی رہا نم دیدہ ہی رہا اور پھر بھی کہا ”پاکستان کھپے“۔ سردار آصف علی زرداری صدارتی الیکشن بھاری اکثریت سے جیت کر واقعی سب پہ بھاری ثابت ہوئے ہیں ، دنیا دیکھ رہی ہے کہ سابق فوجی آمر اور ”امیر المومنین“ مرحوم جنرل ضیاء الحق کے فرزند اعجاز الحق جیسے ”جمہوریت پسند“ ان کے ووٹر ہیں اور ماضی میں پرنٹ میڈیا کو پیسے دے کر بذریعہ میڈیا ٹرائل انہیں مسٹر 10 پرسنٹ کا ٹائٹل دلوانے والے تہمتیں لگانے والے اور چوکوں میں گھسیٹنے والے ”ترقی پسند“ آج ان کے سب سے بڑے سپورٹر ہیں، میرے خیال میں یہ زرداری جی کے صبر و فہم و فراست اور ایثار و محنت و مفاہمت کی سیاست کا ثمر ہے ۔ سیاست کے اس اصلی شیر لیڈر پہ میں نے ایک نظم لکھی تھی اس کے چند اشعار :
کبھی جُھکایا سر نہ تُو نے
اور مانا مُول جبر نہ تُو نے
اب تُو ہے وارث بی بی کا
اور تُو ہی قائد پی پی کا
کوئی دکھا دو رنگ نیارے
ہم سب ہیں سنگ تمہارے
علم اور عدل عام کر دو
دیس عوام کے نام کر دو
برادرم حامد میر فرماتے ہیں کہ ”آصف سرداری کا صدر مملکت بننا شہباز شریف حکومت کی بقا کی ضمانت ہے“۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو لیکن میری رائے میں ان حالات میں زرداری صاحب کیلئے یہ صدارت محض ایک منصب ہی نہیں ہو گا بلکہ کڑا اور بہت ہی بڑا امتحان ہو گا مگر میں دعا گو ہوں کہ اللہ قادر و قدیر زرداری صاحب سمیت پاکستان اور اہل پاکستان کو ہر میدان اور ہر امتحان میں سرخرو اور کامران فرمائیں۔ آمین. محترم زرداری جی کی خدمت میں بصد ادب التماس ہے کہ آپ اپنی ”منجی تلے ڈانگ پھیریں“۔ پارٹی کو مقبول بنائیں۔ دوست دشمن کی پرکھ کریں پہچان فرمائیں۔ اپنے پرستاروں اور حُبداروں کو پلیز سنبھالیں، نہیں تو ”چڑیاں کھیت چُگ جائیں گی“ پھر آپ ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔