• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برادر عزیز یاسر پیرزادہ علی الصباح دریافت کرتے ہیں کہ آپ نے استاذ الاساتذہ مجیب الرحمن شامی کا کالم دیکھ لیا۔ کیا عرض کرتا۔ ہمارا اپنا ادارتی صفحہ اب سہیل وڑائچ، سلیم صافی اور حامد میر کے طفیل چھپتا ہے۔ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا۔ محض یہ سمجھنے کے لئے دیکھ لیتا ہوں کہ آج کس لفظ پر تیغ احتساب چلی۔ بھائی کے توجہ دلانے پہ استاد گرامی مجیب الرحمن شامی کی تحریر نکال کر پڑھ لی۔ استاد کی تادیب خوش قسمت طالب علموں کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کوہ قامت شہری کا 1972 میں فوجی عدالت کے روبرو بیان ہماری تاریخ میں ان کے درخشاں مقام کی ضمانت ہے۔ یہ یاد کرنا تو خفت دروں کا سامان ہے کہ ایم انور بار ایٹ لا اور اللہ بخش کریم بخش بروہی نے جسٹس حمود الرحمن کے روبرو جو دلائل دیے، وہ جسٹس انوار الحق کے حضور کیونکر بدل بدل گئے۔ مجیب الرحمن شامی کو ہم نے تاریخ کے نشیب و فراز میں لڑ کے پہچانا اور استاد تسلیم کیا۔ وہ ہمارے منطقہ بنجر کا نخلستان ہیں۔ ان کا علم، تدبر اور حسن اخلاق خوان تعلیم کی نعمت ہیں۔ ان کی بے پایاں شفقت زندگی کا احسان ہے۔ اختلاف سے البتہ گریز نہیں، اختلاف جمہوریت کا حسن ہے۔

بندہ کم مایہ نے گزشتہ معروضات میں قرارداد مقاصد پر رائے دی تھی۔ برادر بزرگ پر گراں گزری۔ گمان ہوا کہ شاید تہذیب اور سرکشی کی حدود میں تمیز قائم رکھنے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ ساری تحریر پھر سے پڑھ گیا۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جو بندگان عالی کی شان میں گستاخی قرار پائے۔ قرارداد مقاصد کے متن پہ رائے دی تھی۔ ایسی رائے تو رئیس الاحرار حسرت موہانی نے بھی دے رکھی ہے۔ بابائے قوم کے بارے میں عرض کی تھی کہ ان سے ہم عصری نصیب ہوتی تو میں دست بستہ اطاعت کرتا۔ محمد علی جناح اختلاف پسند کرتے تھے۔ استاد محترم ڈاکٹر اقبال احمد ایک حدیث دہرایا کرتے تھے۔ مفہوم یہ کہ اختلاف امت میں باعث رحمت ہے۔ تاریخ کے فہم اور جمہوری بندوبست میں اختلاف تو ہوتا ہے۔ میری گزارشات کا مفہوم یہ تھا کہ مملکت پاکستان کی تاریخی یا نامیاتی شناخت موجود نہیں۔ یہ نشاۃ ثانیہ کے سیاسی مدوجزر میں ابھرنے والے خد و خال کی ایک آئینی ترتیب ہے۔ تاریخ اور جغرافیے کا جبر ہے۔ ہم نے اسے تسلیم کیا۔ اس مادر گیتی کی ترتیب و تخریب میں بقدر حوصلہ اپنا حصہ دیا۔ ہم نے تو سوئٹزر لینڈ اور فرانس میں حائل جھیل کے کنارے کاشانے آباد نہیں کیے۔ کینیڈا کی شہریت نہیں لی۔ ہم نے اس ملک کے خس و خاشاک سے رشتہ قائم رکھا۔ تین برس والے آئے اور گئے۔

ناچیز نے لیاقت علی خان کے بارے میں رائے دی۔ لیاقت علی خان کرنال کے تعلقہ دار تھے۔ محمد علی جناح بمبئی کے شہری بیرسٹر تھے۔ فیروز نوروجی، کرشن گوپال گوکھلے اور سریندر ناتھ بینر جی کے ساتھی تھے۔ تلک اور لاجپت رائے کے مخالف تھے۔ محمد علی جناح ہماری تحریک آزادی کا ہراول دستہ تھے۔ لیاقت علی تو پنڈت نہرو سے بھی چھ برس چھوٹے تھے۔ لیاقت علی کی سیاسی تاریخ دستاویز ہے۔1937 کی پارلیمانی پارٹی، 1938 کے پٹنہ اجلاس اور 1941 کے مدراس سیشن کی باز آفرینی سے نامناسب تلخی پیدا ہو گی۔ درویش تو لیاقت علی کے خون ناحق کا سوالی رہا ہے۔ بی بی سی پر پانچ قسطوں میں تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔ لیاقت علی کے محاسن سے کہاں انکار کیا؟ شبیر عثمانی کا قصہ البتہ الگ ہے۔ ایک مرتبہ بیان کرنا چاہا۔ برادرم سہیل وڑائچ نے بطریق احسن سمجھایا کہ اس پر حساسیت ہے۔ ہم نے مان لیا۔ یہ اصول بہرحال قائم ہے کہ جو سیاسی کردار کا مطالبہ کرے، اس کی مذہبی حیثیت ایک طرف رکھ کے تاریخ میں کردار پر بات کی جائے گی۔ غالباً اسی نکتے پر استاد گرامی کو کوفت ہوئی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں جو تاریخ ساز خطاب کیا تھا اس کا جواب یکم ستمبر 1947ءکو نوائے وقت میں شائع ہوا تھا۔ تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا۔ چھ جنوری 1948 ءکے کراچی فسادات کی تفصیل موجود ہے۔ شبیر عثمانی صاحب 1944 ءمیں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ قرارداد مقاصد کا متن مرتب کرنے میں شبیر احمد عثمانی کا حصہ تاریخ کی امانت ہے۔ دسمبر 1949ء میں انتقال ہوا۔ جنوری 1951ءمیں علما نے دستور ساز اسمبلی کے بنیادی اصولوں کے بالمقابل اپنے 22 نکات پیش کیے۔ تب محمد علی جناح کا متحدہ پاکستان موجود تھا۔ بنگالی ہم وطنوں نے جگتو فرنٹ بناتے ہوئے 4 دسمبر 1953کو اپنے 21 نکات پیش کیے تھے۔ وہ 56فیصد اکثریت تھی۔ دونوں دستاویزات آمنے سامنے رکھ کر بتا دیجئے کہ 1946ءمیں مسلم لیگ کو اکثریت دینے والا واحد صوبہ بنگال پاکستان کا مطالبہ سمجھتا تھا یا رام پور کا شیر علی پٹودی۔ بھائی، ہمارا جھگڑا عقیدے کا نہیں، شہریت کا ہے۔ آپ کے حقِ عقیدہ کا ہم سو فیصد احترام کرتے ہیں لیکن ہم پاکستان میں شہریت اور دستور میں دیے گئے حقوق بحیثیت شہری مانگتے ہیں۔ آپ کی یہ رائے واقعاتی طور پر درست نہیں کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے ہر دستور کا حصہ رہی اور اس کے ’کسی شوشے میں تبدیلی کی کسی کو جسارت نہیں ہوئی‘۔ حضور یہ قراردادپاکستان کے چار دساتیر کا دیباچہ تھی۔ اسے 16 اکتوبر 1985ءکی رات ساڑھے گیارہ بجے آٹھویں دستوری ترمیم میں نافذہ متن کا درجہ دیا گیا۔ اس کا ’شوشا‘ 8 اپریل 2010 کو پارلیمنٹ نے تبدیل کیا۔ مذہبی اقلیتوں کے لئے عبادت کا ’آزادانہ‘ حق بحال کیا تھا۔ حضور ہم پاکستان میں پیدا ہوئے تھے، ہم شہری ہیں، ہماری شہریت ہمارے عقیدے کے تابع نہیں۔ دستور کی شق 20 اور 25 دیکھ لیجیے۔ علمائے کرام کی شان میں گستاخی؟ یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں ہمیں۔ ہمارے جیتے رہنے کے لیے تو روشنی کی یہ کرن ہی کافی ہے کہ ضیا الحق مرحوم نے ایوان بالا کی مخصوص نشستوں میں ٹیکنو کریٹ کے ساتھ علما کا شوشہ لگایا تھا۔ ایوان بالا کے انتخابات 2 اپریل کو ہونا ہیں۔ کسی پارلیمانی جماعت نے کسی مذہبی پیشوا کو ایوان بالا کے لیے نامزد نہیں کیا۔ آپ کی شفقت ہمیشہ سایہ فگن رہی ہے۔ آپ سلامت رہیے۔

تازہ ترین