• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ میرے محبوب قائد کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا، وہ زنداں میں ہو یا باہر ہمیشہ خبروں میں رہتا ہے، کوئی محفل نہیں جہاں اُس کا ذکر نہ ہو اور کوئی گفتگو نہیں جو اُس کا نام لیے بغیر جاری رہ سکے، ہر سُو اسی کا چرچا ہے اور اُسی کی باتیں ہیں۔ ایک طرف اُس کے مخالفین ہیں جو اُس سے عاجز آ چکے ہیں، انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اُس کی جادوگری کاکیا توڑ کریں، دوسری طرف اُس کے چاہنے والے ہیں جو اُس کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ دنیا حیران ہے کہ آخر اِس مردِ مجاہد کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جس سے اُس نے عوام کو دیوانہ بنا رکھا ہے، حالانکہ اُس کےدورِ اقتدار میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی تھی اور جو وعدےا ُس نے کیے تھے وہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے مگر اِس کے باوجود اُس کی مقبولیت کم نہیں ہوئی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاستی اداروں پرحملہ کرنے سے لے کر حساس نوعیت کی دستاویزات غائب کرنے تک،ہر قسم کے لغو الزامات اُس پر لگائے گئے اور عجیب و غریب مقدمے بنائے گئے مگر وہ ڈرا نہیں ،جھکا نہیں، بکا نہیں۔ اِس وقت بھی میرے محبوب قائد کے خلاف بے شمار کیس ہیں اور اسے بدترین ریاستی جبر کا سامنا ہے مگر مجال ہے کہ اُس کے چہرے پر کوئی پریشانی ہو یا ماتھے پر کوئی شکن، پورے قد کے ساتھ وہ کھڑا ہے اور اپنے مخالفین کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اقتدار سے باہر ہے مگر یوں لگتا ہے کہ اصل اقتدار اُس کے پاس ہے، اخبارات ہوں یا ٹی وی پروگرام ہر جگہ وہ سُرخیوں میں ہے۔ ’میں ترا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں!‘ جی ہاں، آپ درست سمجھے میرا محبوب قائد اور کوئی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔

کسی جمہوری ملک میں اِس بات کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایک سابق صدر کو مقدمات میں الجھا کر تکنیکی بنیادوں پر انتخابات کی دوڑ سے باہر کیا جائے۔ ہفت روزہ اٹلانٹک نے میرے لیڈرپر قائم تمام مقدمات کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے، اِن مقدمات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ریاست کوسوائے اِس کے اور کوئی کام نہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہر قیمت پر عوام سے متنفر کردے مگر میرا محبوب قائد اب لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے، اُسے دل سے کیسے نکالو گے! ویسے اِن مقدمات کے بارے میں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ نیویارک میں جو مقدمہ بنایا گیا اُس میں قائد محترم پر 355 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا، الزام یہ تھا کہ انہوں نے اپنی دولت اور جائداد کی مالیت کے بارے میں جھوٹ بولا۔ اِس سے زیادہ مضحکہ خیز اور جاہلانہ بات کوئی نہیں ہو سکتی، بھلا قائد محترم کو کیا معلوم کہ پورے امریکہ میں بکھری ہوئی اُن کی جائیدادوں کی درست مالیت کیا ہے، یہاں تو یار لوگ پانچ مرلے کے گھرکی اصل قیمت نہیں بتاتے اور آپ میرے قائد کو اِس بات پر سزا دینا چاہتے ہیں کہ وہ دولت مند کیوں ہے، چہ خوب! اگلا کیس سنیے۔ کیرول نامی ایک عورت نے میرے محبوب قائد پر2019 میں الزام لگایا کہ اُنہوں نے 1990 میں من ہٹن کے کسی ڈیپارٹمنٹل سٹور میں اِس عورت کاریپ کیا تھا۔ گوکہ میرے قائد نے اِس بیہودہ الزام سے انکار کیا مگر پھر بھی عدالت نے اُس عورت کو پانچ ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا، اور جب میرے قائد نے بلیک میل ہونے سے انکار کیا تو عدالت نے ایک اور مقدمہ بنا کر مزید 83 ملین ڈالر کا جرمانہ ڈال دیا۔ کُل عالم جانتا ہے کہ عورتیں میرے قائد پر مرتی ہیں اور اُس نے کبھی اِس بات کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی کیونکہ میرا لیڈر دوسرے سیاست دانوں کی طرح منافق نہیں ہے، اور ویسے بھی قائد محترم کئی ہوٹلوں کے مالک ہیں، انہیں کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی سٹور میں جا کر منہ کالا کرتے، اور پھر اُس فاحشہ کو تیس سال بعد یاد آیا کہ اُس کا ریپ ہوا تھا؟ یہ سب میرے محبوب قائد سے پیسے بٹورنے اور انہیں بلیک میل کرنے کی سازش ہے مگر میرا قائد اِن باتوں سے گھبرانے والا نہیں۔

امریکہ کے محکمہ انصاف نے میرے قائد کے خلاف ایک مقدمہ یہ بھی قائم کیا ہے کہ صدارت سے سبکدوش ہوتے وقت وہ قومی سلامتی سے متعلق حساس نوعیت کی دستاویزات اپنے ساتھ لےگئے اور واپس نہیں کیں۔ اِس پر میں اب کیا کہوں۔ میرا قائد کوئی چپڑاسی نہیں تھا، دنیا کی سپر پاور کا صدر تھا، کیا وہ دستاویزات کا صندوق سر پر لاد کر وہائٹ ہاؤس سے نکلا تھا اور اُس وقت اُس نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی !Come on guys, give me a break... اور آپ لوگ اُن مقدمات کے بارے میں تو جانتے ہی ہیں جن میں میرے قائد پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے 2020میں اپنے حمایتیوں کو ورغلایا تھا کہ وہ کیپٹل ہِل پر ہلہ بول کر انتخابات کے نتائج کو چوری ہونے سے بچائیں۔ میں اِن مقدمات کے بارے میں یہی کہوں گا کہ میرے لیڈر کی تقریر ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے اپنے کارکنوں کو ’پُر امن‘ احتجاج کا کہا تھا، اور ویسے بھی اِس میں کیا شک ہے کہ 2020ءکا الیکشن چوری ہوا تھا اور جو بائیڈن ایک جعلی صدر ہے، اگر اسے جعلی صدر کہنا جرم ہے تو میرا قائد یہ جرم بار بار کرے گا۔ اِس کے علاوہ بھی نام نہاد الزامات کی ایک طویل فہرست ہے جو میرے قائد کو بدنام کرنے کے لیے میڈیا میں پھیلائی جا رہی ہے تاکہ میرا لیڈر انتخابات میں حصہ نہ لے سکے مگر ’باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔‘

اصل بات یہ ہے کہ میرے لیڈر کی مقبولیت نے مخالفین کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے، انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ اِس کے بیانیے کاتوڑ کیسے کریں، کبھی طعنہ دیتے ہیں کہ اسے صرف ’ریڈ نیک‘ جیسے جاہل ووٹ ڈالتے ہیں اور کبھی یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ اِن مقدمات میں سزا کے بعد ٹرمپ کا مستقبل ختم ہوجائے گا۔یہ لوگ میرے محبوب قائد کو جانتے نہیں، میرا قائد اِن ہتھکنڈوں سے گھبرانے والا نہیں، وہ مردِ آہن ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اُس کا ایکس (ٹویٹر) اکاؤنٹ دیکھ لیں جہاں اُس کے آٹھ کروڑ سے زائد چاہنے والے ہیں ، کوئی ہے جو اُس کا مقابلہ کرے؟آخری مرتبہ جب اُس نےایکس پر پوسٹ کی تھی تو لکھا تھا کہ Never Surrender۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے ، ڈٹ کر کھڑا ہے میرا قائد!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین