• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم شہبازشریف نے ماہرین کی ایک ٹیم کو ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے جس سے آئینی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے معیشت،سرمایہ کاری، مہنگائی وغیرہ جیسے معاملات پر فیصلہ سازی میں صوبوں کو بھی وسیع تر بنیادوں پرشامل کیا جاسکے۔یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس کی اہمیت ایسے منظر نامے میں بڑھ گئی ہے جب عام انتخابات کے نتیجے میں الگ الگ پارٹیوں کوصوبوں میں مینڈیٹ ملا ہے اور وفاق میں بھی مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عوام تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک ساتھ ملک کی خدمت کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ سیاسی قوتیں اپنے اپنے بنیادی نظریے پرقائم رہتے ہوئے مل جل کر کام کرنے کی راہ نکالیں۔وفاقی جمہوری حکومتوں میں ایسی صورت حال خلاف معمول نہیں جس میں ایک ہم آہنگی کے ساتھ وفاقی وصوبائی حکومتیں کام کرتی ہیں جبکہ قوانین،کام کرنے کے طریق اور کارکردگی کا وقتاً فوقتاً جائزہ بھی لیتی رہتی ہیں۔مثال کے طور پر وطن عزیز میں 18۔ ویں آئینی ترمیم کے بعد جہاں صوبوں کی اہمیت بڑھی وہاں یہ بھی محسوس کیا گیا کہ وفاق نے تو صوبوں کو بہت کچھ دیدیا مگر صوبوں نے نچلی سطح پر منتقلی کے کام کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی۔ وفاقی ڈھانچے کی تینوں سطحوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے بالخصوص نچلی مقامی حکومت کی سطح کی۔ جسے جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے اور جہاں سے نئی پُرعزم قیادت صوبائی اور وفاقی سطح تک پہنچتی ہے۔ مقامی حکومت کا وطن عزیز کے حوالے سے بطور مثال تذکرہ اس لئے کیا گیا کہ بہت سے امور قانون سازی کے مرحلے پر یا کسی دوسرے مرحلے پر بعض وجوہ سے نظر انداز ہوسکتے ہیں۔مقامی حکومتوں کے معاملات میں ایسا ہی ہوا ہے ۔اسی طرح بعض مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے کے طریقے کبھی مثالی نہیں ہوتے۔ ان میں اصلاح اور تجزیے کی ضرورت رہتی ہے۔پاکستان کو جن داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی چیلنجوں کاسامنا ہے۔ ان کے پیش نظر ایسی حکمت عملی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس میں وفاقی سطح پر فیصلہ سازی میں صوبوں کی مشاورت اور نقطہ نظر بھی شامل ہو۔آئین میں بعض ایسی شقیں موجود ہوتی ہیں اور ادارے بھی قائم ومتعین کئے جاتے ہیں جواس باب میں معاونت فراہم کرتے ہیں مگر کسی وجہ سے ان کی اہمیت اگر نظر انداز ہوئی ہے تو حالات حاضرہ کے تناظر میں اس کوتاہی کو دور کیا جاسکتا ہے۔قومی اقتصادی کونسل( این ای سی )اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) جیسے ادارے اس باب میں زیادہ فعال بنائے جاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اعلیٰ سطح کے جس اجلاس میں مذکورہ حکمت عملی بنانے کی ہدایت دی اس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ آئینی مینڈیٹ کے مطابق اقتصادی، مالیاتی اور تجارتی حالات کا جائزہ لینے کے لئے قومی اقتصادی کونسل(ایکنک) کی ایگزیکیٹو کمیٹی کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔تجویز ہے کہ ایکنک کا اجلاس مہینے میں کم ازکم ایک مرتبہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ صوبوں کے ساتھ فعال انداز سے رابطہ کاری اور ہم آہنگی کو فروغ ملے۔ قومی اقتصادی کونسل، مشترکہ مفادات کونسل کے باقاعدہ اجلاس کا جلد تر انعقادکئی اچھے نتائج دے سکتا ہے۔ مشترکہ فیصلہ سازی اور مشترکہ فوائد سے پاکستان معاشی طور پر بہتر ترقی کرسکتا ہے اور تمام صوبوں میں ترقیاتی سرگرمیاں بڑھ سکتی ہیں۔ جبکہ عوامی مسائل پر قابو پانے کی کاوشوں کو موثر تر بنایا جاسکتا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے دوران خصوصی سرمایہ کاری کونسل( ایس آئی ایف سی) کے قیام کا مقصد بھی مرکز اور صوبوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے قریبی تعاون سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاروبار دوست ماحول کو فروغ دینا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ ایسی حکمت عملی جلد بروئے کار لائی جائے گی جس کے ذریعے وفاق اور صوبے زیادہ رابطے میں رہیں، اندرونی وبیرونی چیلنجوں سے موثر طور پر نمٹا جاسکے اور عوام کی مشکلات کم کی جاسکیں۔

تازہ ترین