• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ رمضان المبارک کی شروعات سے دو چار دن پہلے کا قصہ ہے، کھلے آسمان تلے نگاہیں اوپر کیے دیکھتا رہا، بہت دیر سوچتا رہا کہ خدایا اس موسم میں، ان حالات میں میرے فلسطینی بہن بھائی ملبے کے ڈھیر پر کس طرح روزے رکھیں گے۔ اس سوال نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا، ایک سوال شدت سے سر اٹھاتا رہا ،مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کی اکثریت میں سے کسی نے آواز بلند نہیں کی کہ اس ماہ مقدس میں ہی جنگ بندی کر دی جائے تاکہ ہمارے مسلمان بہن بھائی کم از کم روزے تو رکھ سکیں۔ ایک مرتبہ پھر آسمان کی طرف دیکھا اور اللّٰہ سے عرض کرنے لگا، اے اللّٰہ! مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی اکثریت غلام ہے، غلام طاقت سے نہیں تو ترلے سے ہی جنگ بندی کروا لیتے مگر افسوس کہ موجودہ عہد کے غلام مسلمان حکمرانوں میں شاید اتنی بھی جرات نہیں کہ وہ ترلا منت ہی کر لیتے، مجھے تو اس ملک پر بھی حیرت ہے جس کے بانی نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ اے خدائے بزرگ و برتر! میرا یقین کامل ہے جب رمضان المبارک میں میرے فلسطینی بہن بھائیوں پر بارود برسے گا تو آسمان سے تیری رحمتیں نازل ہوں گی، جب غزہ کے لوگوں پر زمینی خدا موت برسا رہے ہوں گے تو خدائے لم یزل موت کے گولوں کو زندگی کے لعل و گوہر بنا دے گا۔ یہ ایک سادہ اور بے بس مسلمان کی دعا تھی جو سرحدوں کا قیدی ہے، جس کے پاس تلوار نہیں وہ جہاد کے دوسرے درجے پر عمل کرتے ہوئے بول سکتا ہے ، لکھ سکتا ہے یا پھر تیسرے درجے کو ساتھ ملا کر دل میں برا جان سکتا ہے۔ خیر! رمضان المبارک شروع ہو گیا مگر جنگ بندی نہ ہو سکی، بارود برستا رہا، ملبے کے ڈھیر بڑھتے گئے، مسلمان دنیا کے غلام حکمراں، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کو بھول کر اقتدار کی غلام گردشوں میں افطاریاں کرتے رہے، کسی کو معیشت عزیز تھی سو اس نے اپنے کاروبار کے لئے خدا کے نام لیواؤں کا قتل عام ہونے دیا، کسی کا سینہ اقتدار کے لالچ سے اتنا بھرا ہوا تھا کہ اس کے سینے میں خون مسلم کے درد کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، کوئی غلامی میں ایسی نوکری کر رہا تھا کہ وہ اسی نوکری کو ابدی حیات سمجھ بیٹھا، سوائے ایک آدھ اسلامی ملک کے کوئی مذمت بھی نہ کر سکا، کوئی آواز بھی نہ اٹھا سکا کہ بقول فراز’’تم نے جاں کے عوض آبرو بیچ دی ‘‘پتہ نہیں کیوں مسلمان ملکوں کے غلام حکمران، پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بھول گئے کہ ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب کبھی جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ عہد حاضر کے غلام حکمرانوں نے مسلمان کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی ہے، انہیں کوئی درد محسوس نہیں ہوتا۔ پتہ نہیں وہ لمبے چوڑے وفود کے ساتھ کس طرح عمرے کر رہے ہیں، کاش انہیں کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یاد آ جاتا کہ رب کائنات نے کس طرح ابرہہ کے لشکر کو برباد کیا تھا۔ کاش! مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کو طواف کرتے وقت یہی یاد آ جاتا کہ اسلام کے ابتدائی زمانوں میں کس طرح دین ِمحمدﷺ کے عشاق، رمضان المبارک میں مقام بدر پر باطل سے ٹکرائے تھے، کاش انہیں یاد رہتا کہ بہادری مومن کی نشانی ہے، بزدلی ہر گز نہیں۔ غلام حکمرانوں کے غول مدینہ میں در رسول ﷺ پر حاضری بھی دیں گے، اللہ جانے یہ دربار رسول ﷺ میں کون سے چہرے پیش کریں کیونکہ اس دوران فلسطین کے بہادر بچے ملبے کے ڈھیر پر سحر و افطار کا بندوبست کر رہے ہیں، دینِ محمد ﷺ کے معصوموں کو پتہ نہیں کس طرح کی خوراک میسر آ رہی ہے یا پھر وہ خود کو بھوک اور پیاس کی نذر کر کے روز حشر کیلئے سحری کرلیتے ہوں، دنیا والے ان پر وقت افطار ظلم ڈھاتے ہیں، بارود کی بو دیتے ہیں اور وہ مالک کائنات کے عطا کردہ صبر، ہمت اور بہادری سے روزے افطار کرتے ہیں۔ دین اسلام کے ان پروانوں کا پتہ نہیں کیا رتبہ ہے کہ یہ اپنے جذبے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو مات دے رہے ہیں۔ غزہ دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں اہل دنیا صبح شام موت برسا رہے ہیں مگر یہیں اہل حق زندگی کو موت میں بدلتے ہوئے مناظر کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ دنیا کے ظالم غزہ پر ظلم کر رہے ہیں اور اہل غزہ بہادری کی داستانیں رقم کرتے ہوئے موت کی بانہوں سے زندگی برآمد کر رہے ہیں۔ غزہ مسلمان دنیا کے غلام حکمرانوں کے منہ پر زناٹےدار تھپڑ ہے۔ غزہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے، محکوم مسلمانوں کی دعا ہے۔ غزہ غلام مسلمان حکمرانوں کے لئے حرف ندامت ہے جبکہ انہی غلام حکمرانوں کی سلطانی میں بے بس محکوم مسلمانوں کی دعا حرف حق ہے۔ وقت فیصلہ کرتا جا رہا ہے کہ کون حق کے ساتھ ہے اور کون کون ظالم کا ساتھی بن چکا ہے۔ آج اقبال کا شعر یاد آرہا ہے کہ

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

تازہ ترین