پشاورہائی کورٹ نے خیبر پختون خوا اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف نہ لینے کے خلاف کیس میں حکم دیا ہے کہ اسپیکر مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لیں۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ اور جسٹس شکیل احمد نے سماعت کرتے ہوئے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی درخواستیں منظور کر لیں۔
درخواست گزاروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کا نوٹیفکیشن جاری کیا، خیبر پختون خوا کی مخصوص نشستوں پر اراکین سے حلف نہ لینا بدنیتی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ منتخب اراکین سے حلف لیا جائے تاکہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈال سکیں، حلف نہ لینے کی صورت میں سینیٹ انتخابات ملتوی کیے جائیں۔
دورانِ سماعت جسٹس عتیق شاہ نے اسپیکر خیبر پختون خوا اسمبلی کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا اسپیکر حلف لینے سے انکار کر رہے ہیں؟
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، پہلی بار گورنر کا حکم اپوزیشن لیڈر کے ذریعے آتا ہے، مناسب طریقے سے نہیں آتا۔
جسٹس عتیق شاہ نے سوال کیا کہ گورنر کا آرڈر کسی نے چیلنج کیا ہے؟
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ کسی نے گورنر کے آرڈر کو چیلنج نہیں کیا، 21 مارچ کو سیکریٹری صوبائی اسمبلی نے خط لکھا۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ سیکریٹری کے خط کو چھوڑیں، ہمیں بتا دیں کہ گورنر اسمبلی اجلاس طلب کر سکتا ہے یا نہیں؟
اسپیکر خیبر پختون خوا اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ آرٹیکل 109 کے تحت گورنر اجلاس طلب کر سکتا ہے، گورنر ایسا کرے گا تو پھر تو وزیرِ اعلیٰ بے اختیار ہو گا۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کیا آپ ان کو ٹیکنیکل گراؤنڈ پر آؤٹ کرنا چاہتے ہیں۔
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ ہم آؤٹ نہیں کرنا چاہتے، اسمبلی اجلاس ابھی ہو نہیں سکتا۔
درخواست گزارکے وکیل عامر جاوید ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیمبر میں بھی حلف لیا جا سکتا ہے، اسمبلی اجلاس طلب کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے ارکان حلف لیتے ہیں، ارکان کے حلف کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا الیکشن ہوتا ہے، ایک ماہ سے درخواست گزاروں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سوال کیا کہ ان کی تو اسمبلی میں اکثریت ہے، پھر کیوں حلف نہیں لے رہے؟
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے جواب دیا کہ بلدیو کمار کیس میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ اس وقت دو ایشو تھے، ان میں پروڈکشن آرڈر اور ان کا حلف تھا۔
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے کہا کہ جی بالکل ایسا تھا پھر اس کے بعد توہینِ عدالت کی درخواست ہائی کورٹ میں دائر ہوئی، اس وقت اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور اس میں ان کو حلف لینے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سوال کیا کہ حلف برداری کے لیے اسمبلی سیشن کی ضرورت ہے یا نہیں؟ حلف اسمبلی کے اجلاس میں ہو گا یا چیمبر میں بھی ہو سکتا ہے؟ صدر اور گورنر اسمبلی اجلاس حکومت کی مشاورت کے بغیر طلب نہیں کر سکتا۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو رویہ الگ ہوتا ہے، اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو الگ رویہ ہوتا ہے، قومی اسمبلی میں آپ لوگ اور صوبائی اسمبلی میں یہ لوگ واویلا مچاتے ہیں، آپ لوگوں کو آئین سے کھلواڑ نہیں، آئین کی پاسداری کرنی چاہیے۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کہا کہ ارکان کا حلف اسمبلی اجلاس میں ہوتا ہے، وزیرِاعظم اور وزیرِ اعلیٰ سے حلف صدر اور گورنر لیتا ہے، ان کا حلف اسمبلی میں نہیں ہوتا۔
اسپیکر کے پی اسمبلی کے وکیل علی عظیم آفریدی نے کہا کہ اسپیکر کا رول نہیں اور یہ ہمارے خلاف ڈائریکشن مانگ رہے ہیں، اسپیکر تب اجلاس کے لیے سمن جاری کرے گا جب اسمبلی کے ایک چوتھائی ارکان درخواست کریں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ جب ایک چوتھائی ارکان اسپیکر کو درخواست نہ کریں تو وہ اجلاس نہیں بلا سکتے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 65 کہتا ہے کہ جب امیدوار اسمبلی رکن منتخب ہوتا ہے، وہ حلف لے گا، یہ تھرڈ شیڈول میں ہے کہ حلف اسمبلی سیشن میں ہو گا، بلدیو کمار اور اسپیکر اسد قیصر کیس میں پشاور ہائی کورٹ نے اس کو واضح کیا ہے۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ ارکان کا نوٹیفکیشن ہو چکا ہے، ان کا حق ہے کہ ان سے حلف لیا جائے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اسمبلی اجلاس نہیں بلایا جا رہا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ 2 اپریل تک آپ اجلاس نہیں بلائیں گے۔