• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گئے وقتوں کا ذکر ہے لاہور میں چیمبرلین روڈ سے باہر نکلتے ہی سرکلر روڈ پر ایک چرس افیون کا ٹھیکاہوا کرتا تھا، ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جس میں سلاخیں نصب تھیں، یہ وہ ’تاریخی‘ مقام تھا جہاں سے ہم نے پہلی بار چرس کا ایک روا خریدا تھا ( خریدار کی عمر دس بارہ سال رہی ہو گی)

بات یہ تھی کہ لاہور کے ’نارمل‘ بچوں کی طرح ہمیں پتنگ بازی سے عشق تھا، ہمارے ننہیال میں کئی بزرگ بڑے اہتمام سے بسنت مناتے،گُڈی ڈور خریدتے، لذیذ پکوانوں کا اہتمام کرتے، تمام خاندان کو اکٹھا کرتے، سارا دن بو کاٹا کے نعرے لگتے، شام گئے تک ایک ہنگامہ رہتا۔ کم از کم ہم بچوں کے لیے بسنت سال کا سب سے بڑا تیوہار ہوا کرتا تھا۔ ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو برادرِ بزرگ کی پُرعزم قیادت میں ڈور گُڈی کے معاملات میں براہِ راست کود پڑے۔ بازار سے لگی لگائی ڈور خریدنا سنجیدہ پتنگ بازوں کی نظر میں’’غیر خاندانی‘‘ ہونے کی قاطع دلیل تھی، سوجب ہم نے پہلی مرتبہ خود بسنت کا اہتمام کرنے کی ٹھانی تو پہلا مرحلہ ڈور لگوانا تھا۔ مختلف موٹائی کے ولایتی دھاگے خریدے گئے اور ایک جید کاری گر تلاش کیا گیا جو مبینہ طور پر برما میں بہ طور سارجنٹ جنگ عظیم میں حصہ لے چکا تھا۔ ہوا یہ کہ باتوں باتوں میں سارجنٹ کے ایک جونیئر کاری گر نے اپنے استاد کی مدح کرتے ہوئے یہ راز فاش کیا کہ استاد بہت اعلیٰ ڈور لگاتا ہے لیکن جب کبھی استاد نے ایک ’جوڑا‘ لگایا ہو تو پھر تو استاد کمالِ فن کی تصویر ہو جاتا ہے ۔یہ ہے چرس کی خریداری کا پس منظر ۔ بہرحال، استاد نے وہ چرس پی اور مانجھا دھاگے کی رگوں میں اتار دیا۔

سال ہا سال اکثر لاہوریوں کی طرح ہم نے بہت شوق سے بسنت کا تہوار منایا۔ بھائی صاحب کے ایک ہم جماعت تھے سلیم صاحب، اکبری منڈی میں انکے گھر کی چھت پر ہم نے پہلی مرتبہ نائٹ بسنت منائی تھی، بس دو چھتوں پر دوچار لائٹیں لگا کر یہ بندوبست کیا گیا تھا، باقی شہر ابھی اس سرگرمی سے ناآشنا تھا۔

ایک بسنت مخالف لابی ہمیشہ سے ہوا کرتی تھی، ہر سال کسی عدالت میں رِٹ ہو جاتی تھی، کچھ مذہبی طبقات بسنت کو ’ہندوانہ‘ تہوار قرار دیا کرتے تھے،جب کہ ہم نے سن رکھا تھا بسنت پنجاب کی مٹی سے پھوٹا تہوار ہے، بلکہ جس طرح لاہور بسنت مناتا تھا وہ لاہور کا ہی حصہ تھا، برِ صغیر کے کسی شہر میں لاہور جیسی بسنت نہیں ہوتی تھی، یہی وجہ تھی کہ ان دنوں ہندوستان سے بہت سے ہندو سکھ بسنت دیکھنے لاہور آیا کرتے تھے۔ ہم سوچتے یہ اچھا ہندوانہ تہوار ہے جسے منانے دنیا بھر سے لوگ دلی، بنارس نہیں جاتے بلکہ داتا کی نگری لاہور آتے ہیں۔وقت گزرتا گیا، پھر یوں ہوا کہ دھاتی ڈور اور کیمیکل والی ڈور کا تذکرہ ہونے لگا، اس سے لوگ زخمی ہونے لگے، ہلاکتیں ہونے لگیں، اخبارات کٹے ہوئے گلوں کی تصویریں چھاپنے لگے، ’’ہندوانہ تیوہار‘‘ والی لابی کو صنم خانے سے پاسبان مل گئے۔دھاتی ڈور پر پابندی لگا دی گئی، لیکن حکومت غیرقانونی ڈور کے استعمال کو روک نہ سکی، اور پھر ایک دن بسنت کے تیوہار پر ہی پابندی لگا دی گئی۔ لاہور کے معروف پتنگ ساز اور ڈور لگانے والے گرفتار ہونے لگے، بے مثل کاری گر راتوں رات مجرم قرار پائے، اور ہتھ کڑیوں میں ان کی تصویریں اخبارات کی زینت بننے لگیں، یعنی ہزاروں ہنرمندوں کا معاشی گلا کاٹ دیا گیا۔

ہم جیسے لاہوری حیران تھے کہ ایک نالائق حکومت جو قانون پر عمل درآمد نہیں کروا سکتی اس نے یہ کیا حل نکالا ہے، صدیوں پرانے تیوہار پر پابندی کیوں کر لگ سکتی ہے؟ مغرب میں کرسمس کے تہوار کے دوران سال کے سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں، امریکا میں پچھلے سال کرسمس پر 345 افراد صرف ٹریفک حادثات میں چل بسے، سینکڑوں بچے کرسمس ٹری سجاتے ہوئے گر کر زخمی ہوئے، کسی نے بچوں اور بوڑھوں کی خون میں لت پت تصویریں چھاپ کر یہ مطالبہ نہیں کیا کہ کرسمس کے ’’خونی تہوار‘‘ پر پابندی لگائی جائے، ابھی پچھلے ہفتے ہولی کا تیوہار مناتے ہندوستان میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں، صرف یو پی اور بہار میں 70 لوگ جان کی بازی ہار گئے، کسی نے ہولی کے تیوہار کو Unholy قرار نہیں دیا، حکومتیں قانون بناتی ہیں، سختی سے نافذ کرتی ہیں، انسانی جان کے تحفظ کی بھرپور کوشش کرتی ہیں، تہوار وں پر پابندیاں نہیں لگاتیں، اپنی زمین سے پھوٹی ہوئی سینکڑوں سالہ تہذیب پر پابندی لگانا بہ ذاتِ خود وحشیانہ عمل ہے۔ لیکن ہم اس کام کے ماہر ہو چکے ہیں، لباس ہو یا زبان، لگتا ہے ہم اپنی مقامی تہذیب کے ہر مظہر سے نفرت کرتے ہیں۔ اس ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے، عساکر، خفیہ ایجنسیاں، پولیس، سب مل کر بھی ایک کیمیکل ڈور پر پابندی نافذ نہیں کر سکتے، بس ایک دستخط سے ایک تہوار پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ سو یوں ایک تیوہار کا خون کر دیا گیا۔

بسنت دنیا بھر میں ہماری پہچان بن گئی تھی، عالمی میڈیا کبھی عید، شبرات کی کوریج کے لیے پاکستان نہیں آیا، بسنت کی کوریج کے لیے سب آتے تھے، رپورٹنگ کرتے تھے، ڈاکومنٹریاں بناتے تھے، ہزاروں غیر ملکی سیاح آتے، لاکھوں ڈالر خرچتے، اربوں روپے خرچ کر بھی پاکستان دنیا میں وہ سافٹ امیج نہیں بنا سکتا جو اکیلا بسنت کا تہوار بناتا تھا۔ اب ہم ہیں اور دنیا کے سب سے آلودہ شہر کا بے رنگ آسمان۔

پچھلے ہفتے سی ایم پنجاب فیصل آباد میں دو گھروں میں افسوس کرنے گئیں، ایک شخص دھاتی ڈور سے ہلاک ہو گیا تھا، دوسرا گٹر صاف کرتے ہوئے زہریلی گیس سے چل بسا تھا۔ غور سے جائزہ لیں تو دونوں اموات کی وجہ ایک ہے، لاقانونیت ۔ اگر قانون کے مطابق سیفٹی کِٹ نہیں پہنی جائے گی تو گٹر صاف کرنا بھی خونیں کھیل ہے، اور اگر کیمیکل ڈور سے کوئی شرپسند گُڈی اڑائے گا تو وہ بھی خونیںکھیل ہے۔کیا آپ کی نظر میں بسنت یا گٹر کی صفائی پر پابندی لگانا ان مسائل کا حل ہے؟

تازہ ترین