• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذاہب عالم کا روزِ ازل سے بنیادی مدعا خدمتِ خلق کے ذریعے خالق کی خوشنودی کا حصول رہا ہے انسان کو مذاہب نے اشرف المخلوقات یا خدا کا کنبہ قراردیا ہے۔ہم خیرالامہ ہیں تو پھر ہم مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ہم بات بے بات انسانوں پر حملہ آور کیوں ہو جاتے ہیں؟ کافر کافر اور گستاخ گستاخ کی گردانیں کیوں الاپنے لگتے ہیں؟ شایدکچھ نادانوں کو کسی نے سکھلایا ہی یہ ہے کہ جوان کا ہم عقیدہ و ہم مسلک نہیں وہ دھتکارے جانے کےقابل ہے ،کیا اس کی تحقیق نہیں ہونی چاہیے کہ ایک خوفناک نعرہ ان کو کس نے دیا ہے یا یہ کہاں سے پھوٹا ہے؟ آج علم و عرفان کی شعوری و فکری سائنٹیفک ترقی میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ذرا اپنی زندگی، اس کی سہولتوں اور اپنے رہن سہن کا قرونِ اولیٰ سے تقابل کر کے تو دیکھو یہ سائنس کے کرشمے ہیں یا تمہاری متشدد تعلیمات کا اثر ونتیجہ؟ جن کا نچوڑ تم مسلکی کتابوں سے ملاحظہ کرسکتے ہو، آج اکیسویں صدی میں کیا تم لوگ اس دنیا کو واپس قرون وسطیٰ کی صدی میں لے جانا چاہتے ہو؟‎ تم لوگ کن مقدسات پر منافرت پھیلا رہے ہو؟ اس کرۂ ارض پر کیا انسان سے مقدس بھی کوئی چیز ہے؟ تم نےاپنی مقدس کتاب میں یہ نہ دیکھا کہ ”جس نے کسی ایک انسان کی ناجائز جان لی اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا“ اور پھر جائز یا ناجائز کی اتھارٹی نا سمجھ لوگوں کے کسی غول کو کس نے سونپی ہے؟ تم کون لوگ ہو انسانوں کی عزت، جان اور مال کے فیصلے کرنے والے؟ کسی ریاستی اتھارٹی یا آئینی منظوری کے بغیر نام نہاد فضلاء کی ایسی جیوری بٹھانے والے یہ کہ کسی کے کپڑوں پر خطاطی قرآنی ہے یا غیر قرآنی؟ ہم مہذب و منظم انسانی سوسائٹی میں رہتے ہیں جانوروں بھرے کسی جنگل میں؟‎ تمہاری اپنی مقدس نگارشات میں کیا اس نوع کا اندراج نہیں ہے کہ بندہ مومن کی عزت و حرمت کعبے کی عزت وحرمت سے بھی اعلیٰ و برتر اور مقدس ہے؟

‎سنٹرل لاہور کی اچھرہ مارکیٹ میں ایک خاتون کے ساتھ ہراسمنٹ کا جو واقعہ پیش آیا، بہت سے لوگ اس کی مذمت یہ کہتے ہوئے کررہے ہیں دیکھیں نا جی اس نے جو لباس زیب تن کرکھا تھا اس پر قرآنی آیات یا الفاظ تو نہ تھے خوبصورت عربی خطاطی میں صرف لفظ حلوہ ہی لکھا ہوا تھا اس پر ہراسمٹ یا توہین کی سزا نہیں بنتی تھی دوسرے الفاظ میں اگر کوئی آیت یا مقدس لفظ ہوتا تو پھر ہجوم اس پر توہین کی سزا لاگو کرنے میں حق بجانب ہوتا؟۔ ‎ایسے متقی اہل ایمان بھی ہیں جو اس نوع کا استدلال کرتے پائے جا رہے ہیں کہ بے شک اس عورت نے قرآنی آیات والا لباس نہیں پہن رکھا تھا لیکن پہناوے میں جو خطاطی تھی اس کی مشابہت تو بہرحال آیات پر جاتی محسوس ہوتی تھی لہٰذا غلطی تو اس نے کی ہے مومنین کو شبہے میں تو اس نے ڈالا ہے۔ کئی اس نوع کے دلائل بھی دے رہے ہیں کہ یہ یہود کی کارستانی ہے پہلے صرف شبہ پیدا کرنے والی خطاطی سےمسلمانوں کا ایمان کمزور کرواؤ پھر جب وہ اسے قبول کرلیں تو اگلے مرحلے پر سچ مچ قرآنی آیات تحریر کردو اس طرح مسلمان جب پہلی صورتحال سے کمپرومائز کر چکے ہونگے تو اصلی آیات کے تحریر کرنے پر زیادہ واویلا یا ردِعمل پیش نہیں کرسکیں گے سو بہتر ہے کہ ایسی برائی کو شروع میں ہی کچل دیا جائے۔‎ درویش عرض گزار ہے کہ اصل رونا عربی خطاطی یا الفاظ کا نہیں بلکہ اس ذہنیت کا ہے جو ہر چیز کو مذہب میں کھینچ لاتی ہے۔ خطۂ عرب جہاں سے یہ مذہب پھوٹا وہاں ایسےمسائل کیوں درپیش نہیں ہیں؟۔ ہمارے کیپٹل سٹی اسلام آباد میں مندر کی تعمیر ہونے لگا تو گویا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ، مگر سرزمین عرب میں ایک مندر تعمیر کیاجاتا ہے تو اس کیلئے پچیس تیس ایکڑزمین خود راسخ العقیدہ عرب حکومت پیش کرتی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہماری سرزمین تو بنیادی طور پر صدیوں سے ہندوستان کا حصہ ہی نہیں اصل ہندوستان رہی ہے تو پھر ہمارے اندر اس قدر تنگ دلی و منافرت کیوں ہے؟ عرب جمہوریہ مصر کے حکمراں شاہ فاروق نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ پاکستانیوں کا مذہبی جنون دیکھتے ہوئے بارہا ہمیں یوں لگتا ہے کہ جیسے اسلام دنیا میں 14اگست 1947ء کو نازل ہوا تھا۔ اقبال نے اپنے ہندی مسلمانوں کیلئے ایک صدی قبل یہ کہا تھا کہ

‎یوں داد سخن مجھ کو دیتے ہیں عراق و پارس

‎یہ کافر ہندی ہے بے تیغ و سناں خونریز

تازہ ترین