• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں بجلی کی پیداواری استعداد طلب کے مقابلے میں زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود روزانہ کے حساب سے مجموعی طور پر اوسطاً 6سے8گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے،اکثر اوقات اسے ہفتے بھر میں دو یا تین بار طویل دورانیے سے بھی پورا کرلیا جاتا ہے۔دوسری طرف بجلی کے بلوں میں کمی دیکھنے میں نہیں آتی جس کی وجہ اس کی قیمتوں میںہونے والا بار بار اضافہ ہے۔اس وقت گھریلو صارفین جملہ ٹیکس ملا کر 55روپے سے زیادہ فی یونٹ بل دینے پر مجبور ہیں جن کی معاشی حالت پہلے ہی جواب دے چکی ہے۔دوسری طرف اہداف کے مقابلے میںکم قومی آمدنی کے باعث معیشت قرضوں پر چل رہی ہے اور اب تک ان کا حجم 64ہزار ارب روپےسے متجاوز ہو چکا ہے۔ قصہ مختصر ،ہر بار نئے قرضوں کے لئے حکومت کوآئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی کا شرائط کا سامنا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ عام آدمی معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے،حکومت کو بجلی،پیٹرول اور گیس کی قیمتیں آئے روز بڑھانی پڑرہی ہیں۔آئی ایم ایف کی طرف سےحالیہ دنوں میں نیا قرضہ دینے کیلئے گیس کی قیمتوں میں بہت بڑے اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاہم ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بجلی کے حوالے سے اس نے حکومت پاکستان کو صنعتی ٹیرف میں کمی کیلئے کپیسٹی چارجز کم کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ اس کا دعویٰ ہےکہ اس پر عمل کرنےسے بجلی ٹیرف میں 18روپے فی یونٹ تک کمی آسکتی ہے جبکہ نئے پاور پلانٹس سے بجلی پوری نہ خریدنے پر صارفین پر سالانہ 2ہزار ارب روپے کا بوجھ پڑ رہا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق مقامی گیس سے سرکاری شعبے کے 5 ہزار میگاواٹ والے پاور پلانٹ چلائے جائیں، جس سے ایل این جی کے مقابلے میں 10سے14روپے فی یونٹ سستی بجلی پیدا ہوگی۔اگر یہ تجویز فائدہ مند ہے تو اس پر تمام زاویوں سے غور کیا جانا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین