• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین میں گزشتہ 2ماہ سے کینیڈا میں مقیم ہو ںاور یہاں میری پاکستانی بزنس کمیونٹی سے گپ شپ رہتی ہے اور ہم سب کا یہی خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت اقتصادی حوالے سے جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کے حل کیلئے نئی حکومت کو بنیادی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ان کے ساتھ کابینہ میں شریک تمام لوگ ان چیلنجوں سے واقف بھی ہیں اور اس سے پہلے بھی مختلف حیثیتوں میں کام کرتے ہوئے وہ ان چیلنجوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ان چیلنجوں سے نمٹنےکیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں اور میثاقِ معیشت یا کوئی بھی ایسی پالیسی بنائیں جس کی مدد سے ملک کو ان سنگین مسائل کی دلدل سے نکالا جاسکے۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے معاشی محقق ڈاکٹر احسن ستی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستان اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کیلئےبیرونی امداد،قرضوں اور گرانٹس پر بہت زیادہ انحصار کرتا رہا ہے ۔جب کہ ان بیرونی ذرائع نے صرف قلیل مدتی ریلیف فراہم کیا،انہوں نے ملک کے معاشی فریم ورک کے اندر انحصار کا ایک نمونہ بھی قائم کیا ہے ،جو ملک کی خود کفالت اور طویل مدتی اقتصادی استحکام حاصل کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ ہے ۔انہوں نے کہا کہ انحصار کے اس چکر سے آزاد ہونے کیلئے پاکستان کو اپنی توجہ ایک مضبوط ملکی معیشت کی پرورش کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔اس میں گھریلو بچت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے والے اقدامات کو ترجیح دینا شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بچت کی شرح اس کے علاقائی ہم منصبوں کے مقابلے میں کم ہے ۔کم آمدنی کی سطح ، ناکافی مالی شمولیت اور بچتوں پر کھپت کو ترجیح دینے جیسے عوامل نے اس عدم توازن میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔گھر یلو سرمائے کی تشکیل کو بڑھانے کیلئے ٹارگٹڈ پالیسیوں او ر مراعات کے ذریعے بچت کی حوصلہ افزائی کرنا ناگزیر ہے۔ حکومت کو افراط زر پر قابو پانے ،مالیاتی خدمات تک رسائی بڑھانے اور سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا کرنےکیلئے پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے اس سلسلے میں کام شروع کردیا ہے۔ یومِ پاکستان کی پریڈ میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شرکت کرنے والے سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان بن عبد العزیز سے ملاقات کے دوران بھی وزیراعظم شہباز شریف نے اسی بات پر زور دیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی کے ساتھ ساتھ معاشی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملاقات میں دوطرفہ امور، علاقائی امن و سلامتی اور خطے کی سکیورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا جس میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں زراعت، معدنیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔معاشی مسائل حل کرنے کیلئے پاکستان نے چین کی سرمائے کی مارکیٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ یورپ سمیت دوسرے ممالک میں شرح سود زیادہ ہے اور حکومت کو توقع ہے کہ چین کی سرمائے کی مارکیٹ سے یورپ کے مقابلے میں کم شرح سود قرضہ مل سکے گا۔ اسی بات کو پیش نظر رکھ کر وفاقی وزیر خزانہ نے چینی مارکیٹ کیلئے پانڈا بانڈز جاری کرنے کا اعلان کیا جن کا حجم 300 ملین ڈالر ہو گا۔ ان بانڈز کو جاری کرنے کا اعلان تو کردیا گیا ہے لیکن ان کا اجرا ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے جس میں پاکستانی قوانین کے ساتھ ساتھ اس مارکیٹ کے قوانین کی پاسداری کرنا پڑے گی جہاں کے سرمایہ کار ان بانڈز کو خریدیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو کیسے دور کرتی ہے اور کتنی جلد ان بانڈز کے اجرا کو یقینی بنایا جاتاہے۔پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی اطلاعات کی وجہ سے پاکستان کے ساورن بانڈ کو تقویت ملی ہے۔ اس صورتحال میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا یہ بہترین موقع ہے۔ ویسے بھی یورو بانڈ کے مقابلے میں پاکستان کو پانڈا بانڈ میں سود کی مناسب شرح مل سکتی ہے۔

اقتصادی معاملات میں بہتری کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ عالمی بینک نے پاکستان کو2منصوبوں کیلئے14کروڑ 97لاکھ ڈالر کی فنانسنگ کی منظوری دیدی ہے۔ عالمی بینک پاکستان کو 7کروڑ 80 لاکھ ڈالر ڈیجیٹل اکانومی انہانسمنٹ پروجیکٹ کیلئے فراہم کرے گا اور اس منصوبے کے تحت شہریوں اور فرموں کیلئے ڈیجیٹل طور پر فعال عوامی خدمات کی فراہمی کی توسیع میں معاونت کرے گا۔ دوسری فنانسنگ عالمی بینک 7کروڑ 17لاکھ ڈالر سندھ بیراجز امپروومنٹ پروجیکٹ کیلئے فراہم کرے گا۔ منصوبے کے تحت سیلاب سے بچائو اور سندھ کے3 بیراجوں کی حفاظت اور انتظام میں بہتری میں معاونت ملے گی۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے بیرونی دنیا سے اچھے اشارے مل رہے ہیں ملک کے اندر موجودا سٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں شہباز شریف کی میثاقِ معیشت سے متعلق تجویز پر غور کیا جانا اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے اختلاف بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک کو اقتصادی طور پر اپنے پائوں پر کیسے کھڑا کیا جائے۔ ملک کو اقتصادی اعتبار سے مستحکم بنا کر ہی تمام سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے سرخرو ہوسکتی ہیں۔

تازہ ترین