انسداد دہشتگردی کے اداروں کا اندیشہ ہے کہ مغربی سرحد پار سے پاکستان کی سلامتی کو نشانہ بنانے والی دہشتگرد تنظیموں کے اتحاد کی جانب سے طےشدہ منصوبے کے تحت ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو سکتا ہے تاہم افغانستان کی سرحدی علاقوں میں موجود دہشتگردوں کی مختلف المزاج تنظیموں کی جانب سے قائم کئے گئے اتحاد، جو صرف پاکستان دشمنی پر متفق اور متحد ہیں، تحریک جہاد پاکستان(TJP) نے پاکستان کے حساس اداروں، مسلح افواج، پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہے-اس سے قبل حکومت پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ دہشتگرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین کو دہشتگردی کے لئے استعمال کرنے سے منع کیا جائے اور پاک افغان بارڈر کے قریب متحرک دہشتگرد تنظیموں کو سرحدوں سے دور منتقل کیا جائے لیکن اس کے لئے افغان حکومت نے بھاری معاوضہ طلب کرلیا جو پاکستان کے لئے ادا کرنا ممکن نہیں تھا- جس کے بعد تحریک طالبان پاکستان (TTP) اوراس کا لکی مروت بیسڈ گنڈا پور گروپ اور افغان دہشتگرد تنظیم ٹیپو گل کاروان گروپ کے الحاق سے تحریک جہاد پاکستان (TJP) جو صرف پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے یک نکاتی ایجنڈے کی بنیاد پر قائم ہوئی، جس نے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں فوجی چوکیوں پر دہشتگردی کی واداتوں سے پاکستان دشمن ’’مشن‘‘ کا آغاز کیا لیکن انہیں مایوسی ہوئی کیونکہ پہلے سے تیار فورسز نے انہیں ٹھکانے لگا دیا- دہشتگرد اتحاد نے KPK کے اندر داخل ہو کر دہشتگرد وارداتیں کرنے کے لئے TTP کے شعیب چیمہ عرف مولوی منیب اور مولوی مخلص کے تعاون سے افغان سرحدی علاقوں خوست، پاتیا، پاکتیاکا، انڑھ اور کنڑھ کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے اور KPK کے اندر حساس تنصیبات اور پولیس تھانوں پر خودکش حملوں کے ذریعے دہشتگردی شروع کی جس کے لئے علاقائی ریاست مخالف عناصر نے لاجسٹک سپورٹ مہیا کی- دہشتگردی کے معاملات پر نظر رکھنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں دو صوبوں، خیبرپختونخوا )کے-پی-کے( اور بلوچستان کو نشانہ بنایا گیا کیونکہ ان دونوں صوبوں میں TJP اور دوسری دہشتگرد تنظیموں کو مقامی ریاست دشمن عناصر کی جانب سے لاجسٹک سپورٹ حاصل تھی- بلوچستان میں انڈین ایجنسیوں کی پشت پناہی اور مالی معاونت میں متحرک علیحدگی پسند دہشتگردوں کو مدد اور معاونت فراہم کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں جبکہ اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ KPK میں دہشتگرد تنظیموں کے راستے ہموار کرنے والوں میں وہ ریاست مخالف قوتیں شامل ہیں جو پی-ٹی-آئی کے دور حکومت میں عمران خان کے مشکوک اور متنازع پالیسی کی بنیاد پر جیلوں میں دہشتگردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں ملوث ہونے کے جرائم میں سزائیں کاٹنے والے 42 ہزار افراد جن میں مبینہ طور پر 7ہزار باقاعدہ دہشتگردی کے جرائم میں گرفتار ہوئے تھے، رہا کئے گئے اور انہیں KPK کے مختلف علاقوں میں آباد کردیا گیا جن میں سے اکثر افغانستان منتقل ہو گئے جہاں وہ دوبارہ دہشتگرد تنظیموں میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف کمربستہ ہو گئے- جیلوں سے رہا کئے جانے والے یہی دہشتگرد تھے جنہوں نے 9 مئی کو ریاست کے خلاف کی جانے والی بغاوت کی کوشش کے دوران ملک میں تباہی مچادی تھی جس کی تمام ذمہ داری عمران خان پر عائد کی جاسکتی ہے جنھوں نے کسی پراسرار وجوہات اور مقاصد کے تحت دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کرکے ملک میں انتشار اور لاقانونیت کی مستقل بنیاد رکھ دی جس کے نتائج ملک اور اس کی آنے والی نسلوں کو مدتوں بھگتنے پڑیں گے- ایک سنگین نتیجہ اور ریاست دشمن ردعمل قوم 9 مئی کی صورت میں دیکھ چکی ہے جس نے نوجوان نسل کی رگوں میں ریاست کے خلاف زہر بھر دیا، گالی اور بدزبانی کا کلچر متعارف کرانے والے ’’حقیقی آزادی‘‘ کی آڑھ میں ریاستی اداروں کو بے توقیری کرنے پر فخر کر رہے ہیں- ہر ذی شعور محب وطن کی نظریں کسی ایسے راہبر کی تلاش میں ہیں جو اس ملک کو گمراہی کی اس دلدل سے نکال کر نوجوان نسل کو راہ راست پر ڈالنے کی اہلیت رکھتا ہو اور انہیں وطن سے محبت اور بڑوں کا احترام کا درس دے سکے-انسداد دہشتگردی کی پالیسی وضع کرنے والےاداروں کا مؤقف ہے ملک میں دہشتگردی میں اضافہ کی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان مرتب اور نافذ کرنے میں ناکامی یا اس سے گریز کرنا ہے جس کی وجہ سے ریاست دشمن قوتوں اور دہشتگردوں کے راستے ہموار ہوئے اور انہوں نے انڈیا سمیت پاکستان دشمن قوتوں کی عملی معاونت اور پشت پناہی اور ریاست اورعسکری اداروں کو دہشتگردی کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوششیں کیں جبکہ "حقیقی آزادی" کے طلبگاروں نے اپنے "مذموم مقاصد" کے حصول کے لئے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے-