مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
والدین، اُساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت، اچھے دوستوں کی رفاقت اور اچھا ماحول انسان کی شخصیت کی تعمیرو نکھار میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خداداد صلاحیتوں کے حامل افراد کو اگر بہترماحول کے ساتھ قابل اساتذہ کی رہنمائی اور تربیت میسّر آجائے، تو وہ معمولی تراش خراش سے کُندن بن جاتے ہیں۔ میرے والد، محمد محسن شاد اپنے والد یعنی میرے دادا، شیخ محمد عظیم کی عملی زندگی کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے بچپن ہی سے نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ سماجی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے۔
پرائمری اسکول میں جب وہ پانچیوں کلاس کے طالب علم تھے، انھوں نے اپنے ہم عمروں کے ساتھ مل کر محلّے میں ’’انجمن غلامانِ مصطفیٰ ؐ ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ثانوی تعلیم کے دوران کچھ عرصہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ منسلک رہے، مگر جب کالج میں قدم رکھا، تو انجمن طلبائے اسلام سے وابستہ ہوگئے اور سپیریئر سائنس کالج، شاہ فیصل کالونی، کراچی کے یونٹ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ اس وقت انجمن طلبائے اسلام کے صدر، عثمان خان نوری اور مرکزی جنرل سیکریٹری شریف سیالوی ہوا کرتے تھے۔ بعدازاں، وہ دونوں شخصیات پاکستان قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔
پھر جب والدِ گرامی نے وفاقی اردو سائنس یونی ورسٹی میں داخلہ لیا، تو دورانِ تعلیم ’’دی رائٹرز فورم‘‘ کے نام سے ایک ادبی سوسائٹی تشکیل دی۔ اسی دوران معروف سماجی رہنما، سعید وارثی کی قائم کردہ سماجی تنظیم، ’’مجلس سماجی کارکنان پاکستان‘‘ سے وابستہ ہوگئے اور جلد ہی ایڈیشنل سیکریٹری جنرل کے عہدے تک جاپہنچے۔ بعدازاں، سماجی شعور کی تقویت کے لیے فلاحی و سماجی تنظیم، ’’تنظیمِ نوجوانانِ اہلِ وطن، پاکستان‘‘ قائم کی اور اسے محکمہ سماجی بہبود سندھ سے رجسٹرڈ کرواکر سماجی کاموں کا آغاز کردیا۔
تنظیم کے تحت فِری کوچنگ سینٹر، فری میڈیکل کیمپ، بلڈ ڈونیشن کیمپ کی سہولت کے ساتھ تقریری و معلوماتِ عامّہ کے مقابلوں، قومی سطح پر مذاکروں، مشاعروں اور مباحثوں کا تسلسل سے اہتمام کیا جاتا، تو قومی سطح پر نعت اور میلادالنبیؐ کانفرنسز کا بھی باقاعدہ اہتمام ہوتا، جن میں ملکی سطح پر معروف علامہ و مشائخ، نعت خوانوں اور دانش ورَوں کو مدعو کیا جاتا۔ فعال نوجوانوں کو مختلف شعبوں میں اُن کی نمایاں کارکردگی پر سالانہ ’’بریلینٹ یوتھ ایوارڈ‘‘ دینے کا سلسلہ1990ء میں شروع کیا گیا، جو ہنوز جاری ہے۔
پچھلے دنوں تنظیم نوجوانانِ اہلِ وطن، پاکستان کے40ویں یومِ تاسیس کے حوالے سے منعقدہ بانی ممبران کے اجلاس میں میرے والد کو تاحیات صدر منتخب کیا گیا کہ ان ہی کی کاوشوں سے 1993ء میں نوجوانوں کی فعال سماجی تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے ضمن میں ’’یوتھ کوآرڈینیشن کائونسل‘‘ قائم کی گئی، جس کے تحت بہت مربوط انداز میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی بھرپور رہنمائی میں بڑا فعال کردار ادا کیا گیا۔ میرے والد، زمانۂ طالب علمی میں ریڈیو پاکستان، کراچی کے پروگرام ’’بزمِ طلبہ‘‘ میں وفاقی اردو سائنس یونی ورسٹی کی جانب سے مختلف پروگرامز میں حصّہ لینے کے علاوہ پاکستان نیشنل سینٹر، کراچی اور حیدرآباد سے قومی سطح کی تقریبات کا انعقاد بھی کرتے رہے۔
اُنھوں نے بچپن ہی سے اخبارات و رسائل میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا، جو تاحال جاری ہے۔ مختلف موضوعات پر اُن کے مضامین ملک کے موقر جریدوں اور اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، انھوں نے ’’سوشل اویئر کائونسل‘‘ بھی تشکیل دی، جس کے تحت ہر مہینے ایک فورم کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ملک بھر کے دانش وَروں، ماہرینِ معیشت اور سماجی کارکنوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
میرے والد نے اردو سائنس یونی ورسٹی، گلشنِ اقبال سے گریجویشن اور سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے سول ٹیکنالوجی میں ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کی ڈگری لی اور تعمیراتی شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ وہ اپنے استاد اورمعروف علمی و ادبی شخصیت عبدالسلام سلامی کے بے حد مداح ہیں کہ جنھوں نے اُن کی شخصیت کے نکھار میں اہم کردار ادا کیا۔ نیز، انھیں بچپن ہی سے کام یاب، قدآور شخصیات کی قُربت حاصل رہی، جن میں حکیم محمد سعید، حکیم محمد احسن، ہاشم رضا، ڈاکٹرابواللیث صدیقی، ڈاکٹر منظور الدین احمد، جسٹس ایس اے نصرت، جسٹس قدیر اور رضوان احمد سمیت کئی نابغۂ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔
میرے والد پوری زندگی فلاحی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہے، مگر بے پناہ مصروفیات اورکام میں مگن رہنے کے باوجود ہماری تعلیم کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ مجھے ایم بی اے، جب کہ میرے چھوٹے بھائی کو بی سی ایس کے بعد ایم ایس کروارہے ہیں اور میری والدہ کے ساتھ مل کر ایک ٹرسٹ قائم کرکے کراچی کے مضافاتی گوٹھوں میں پرائمری تعلیم اور بنیادی صحت سے متعلق صحت و تعلیم کے لیے مربوط انداز میں کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ اللہ ربّ العزّت ہمارے والد کو اُن کے نیک مقاصد اورارادوں میں کام یابی و کام رانی عطا فرمائے۔ (اریبہ محسن، کراچی)