• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابا جی عشروں سے ادارہ جنگ سے وابستہ ہیں۔ برسوں بابے سے میرا بھی پیشہ ورانہ واسطہ رہا۔ اختتامی عشرے (یا اس سے بھی زیادہ عرصے) میں وہ گروپ ایڈیٹر رہے۔ خاکسار بھی اپنی پنجاب یونیورسٹی سمیت 5 ملکی یونیورسٹیوں میں چالیس سالہ تدریس صحافت کے دوران ادارہ جنگ میں ہی ’’جزوقتی‘‘ کا چولا اوڑھ کر کل وقتی سرگرم رہا اور پیری مطابق تادم ہوں۔ کسی بھی مخصوص پیشہ وری کی تدریس اور ساتھ ساتھ پریکٹس کا اپنا ہی مزا ہے۔ یہ مزا اڑانے والے ہی جانتے ہیں کہ یہ مزا کیا ہے۔ بابا جی کی گروپ ایڈیٹری کے دوران ان سے میرا حاصل محصول کا واسطہ برسوں پر محیط رہا کہ ناچیز کو روزنامہ جنگ کے یونیک فیچر ’’ڈویلپمنٹ رپورٹنگ سیل‘‘ کا بانی ایڈیٹر ہونے کا موقع ملا کہ یہ بوٹا خادم کے ہاتھوں ہی لگا۔ اس نے سماجی ترقی کی رپورٹنگ کا سایہ ملکی میڈیا تک کیسے پھیلایا (یہ کہانی پھر کبھی) اخباری ادارے میں گروپ ایڈیٹر سب ہی ایڈیٹروں کے لئےبڑی اور مسلسل لرننگ کا ذریعہ بنتا ہے۔ یوں خاکسار کوبھی جناب محمود شام سے سیکھنے سمجھنے کا خوب موقع ملا۔ ان سے مختصر انٹرایکشن کبھی حاصل سے خالی نہ ہوا۔ اب تو بابائے ہو کر بھی کالم نویسی کو ہی وقار دے رہے ہیں۔ اس میں بھی بابے نے اپنے طویل تجربے و مشاہدے کو کیا خوب رنگ دیا ہے۔ اس کا حاصل ’’آنکھیں کھولنا‘‘ ہے۔ بابا جی کی کالم نویسی کی بڑی خوبصورت خوبی معاشرتی طبقات (SEGMENTS OF SOCIETY) پر ان کا چوکس رہنا ہے۔ خصوصاً بال و پر نکالے اور نکالتے نوجوانوں اور ہونہاروں کی ’’نیشن بلڈنگ پراسیس‘‘ کی اہمیت کو جتنا انہوں نے سمجھا اور اپنے قارئین کو سمجھانے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں وہ اب تبلیغ کے درجے پر آگیا ہے۔ کئی کالم نویس دوست وقتاً فوقتاً اپنے اپنے بابوں کا ذکر قارئین سے گپ شپ میں کرتے رہتے ہیں۔ یقین جانیے میرا بابا نرالا ہے۔ وہ اس عمر پیری میں نوجوانوں سے ملنے، ان کی سرگرمیوں میں شریک ہونے بلوچستان کے ویرانوں تک چلا جاتا ہے۔ اور کبھی وہ دور افتاد علاقوں کے کتابی میلوں، محفلوں کے درمیان ہو کر، نئی نسل سے انٹریکشن کے گلدستے سجاتا ہے۔ اور ہر اتوار کو خاندان بھر کے گھرانوں کے بڑوں، جوانوں، بچوں کی محفل برنچ، ناشتے واشتے پر لگا کر قارئین کو اکساتا ہے کہ ان کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھو، اگر کچھ ملک و قوم اور اپنے اور گردو نواح کے امن و سکون اور ہنسی خوشی کے لئے اس ستم زدہ وقت میں بھی کچھ کرنا کرانا ہے۔

قارئین کرام! آج کا ’’آئین نو‘‘ بہت سنجیدہ اور وسیع موضوع ’’ڈسٹربڈ پیراڈائم شفٹ اور پاکستان‘‘پر قسط وار جاری سلسلے کو آج کےلئے ثانوی بنا کر بابا جی کے گزشتہ روز کے کالم بعنوان ’’90 کی دہائی بمقابلہ اکیسویں صدی‘‘ وقت کی صدا، قوم کی ضرورت اور بھٹکتی قوم کو راست راہوں پر ڈالنے کی پیرانہ کوششوں میں ناچیز کا چندہ ہے۔ آپ سے بھی بڑھ کر ملک کے کرتے دھرتے، پالیسی و فیصلہ ساز اور عمل درآمد کے ذمے دار بابو سنیں! ایک کان بند کرلو اور ملک و قوم کی خاطر دماغ کھلا رکھو۔ بابا کہہ رہا ہے: کرب کا عالم واہگہ سے گوادر تک ہے۔ صرف موٹر وے اور بڑی شاہرائوں پر ہی نہیں، شہر برائے شہر سڑکوں پر، کچے راستوں پر آرزوئیں تڑپ رہی ہیں۔ موٹر وے پولیس کو یہ تربیت ہی نہیں دی گئی کہ وہ مسافروں کی تمنائوں اور امنگوں کی دھند کا بھی جائزہ لے کر سڑکیں کھولے اور بند کرلے۔ خواہشات اور عزائم کا راستہ بلاک کرنے والوں کے چالان کرے۔ سرکاری مورخ تو فی الحال اعزازات کے حصول کے بعد مبارکباد وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ تاریخ کے قاری دیکھ رہے ہیں کہ ’’تاریخ کے پہیے کو دھکیلنے کی کوشش زوروں پر ہے‘‘۔ سسٹم غیر تحریری طور پر ایسا چنگاریاں ہر ناکےپر سلگ رہی ہیں۔ کہیں کہیں شعلہ بن کر بھڑکتی ہیں۔ اقبال سے سرور پاتے، بابا جی فرماتے اور حالات حاضرہ کا تجزیہ کرتےہیں: تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی مزاحمت نئے ہزاریئے کی نسل کر رہی ہے۔ اسے قدرت نے جبلت عطا کی ہے۔ سرخ و سبز کے نعروں میں مبتلا نہیں، کرنے والا کا م کر رہی ہے۔ اصل معرکہ 80 کی دہائی کے بوڑھے نودولتیوں اور نئے ہزاریئے کی اسی پرعزم نئی نسل کے درمیان ہے۔ آشکار ہے کہ 80 والے پیران تسمہ پا ابھی غلاموں کی خرید و فروخت کو ہی کامیاب حکمرانی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ خرد غلامی سے آزاد ہو رہی ہے۔ پیراڈائم شفٹنگ کی بات کرتے بابا کا کہنا ہے کہ :مشرق و مغرب میں نئے دور کا آغاز ہے۔ ہر دو میں سوچ کا فرق کتنا ہے ہم کہتے ہیں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ مغرب کہتا ہے SURVIVAL OF THE FITTEST الفاظ پر غور کریں دونوں بیانوں میں زمانوں کا کتنا تفاوت ہے۔ ہم اپنے آپ کو صرف انفرادی طور پر نہیں، قوم کو ہی ضعیف سمجھ رہے ہیں جبکہ مفکر پاکستان ضعیفی کو جرم قرار دیتا ہے۔

ہاں! بابا جی کا کالم پاکستان میں اپنے اپنے مطلب کی رائے سازی کے لئے اداریوں، تجزیوں، کالم نویسی اور ٹاک شوز کے امڈتے سمندر میں واحد لہر ہے جو وقفوں سے اٹھ کر نوجوانوں کے مرکز ذہن سازی سے رجوع کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ جب وہ قومی مسائل کی حقیقی تلاش کے لئے بار بار یونیورسٹیوں سے رجوع کرنے اور انہیں اپنے اصل کردار کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ گویا وہ گورننس و سیاست کو نالج سے جوڑنے کی بات کرتے ہیں تب بھی جبکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی یونیورسٹیاں خالی پڑی ہیں۔ پھر بھی باریک گلی یہ ہی ہے لیکن نوجوان شدید دبا ئو میں طعنے، گستاخی کے فتوے دہ بھی پیران بگاڑ و تباہی کی طرف سے۔ حالانکہ اگر ’’ہیومن ریسوس ڈویلپمنٹ‘‘ کے جدید جاپانی فلسفے کی حقیقت کو سمجھا جائے تو یہ جواں سال ہی وہ جن ہیں جو اپنا بگاڑ (جتنا بھی ہے) لمحوں میں چھو کرکے ختم کرتے، تعمیر وطن میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی بوتل توڑ کر انہیں نکلنے دو، یہ تیل کے چشموں اور سونے کی کانوں سے بڑھ کر ہیں،خود پیرتو بن کر دکھائو، بس اب نکال دو انہیں بوتلوں سے۔ اور ان کی مائوں بہنوں کو احترام بخشو، بہت ہوئی۔ وماعلینا الالبلاغ۔

تازہ ترین