• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال سوچتا ہوں کہ رمضان المبارک میں شہروں سے کہیں دور چلا جاؤں، جہاں ملاقاتیوں کی تعداد کم ہو مگر ہر سال میرا یہ خیال بکھر جاتا ہے۔ ملک کے کسی بھی شہر چلا جاؤں، مصروفیات مجھے گھیر لیتی ہیں، یہی حال بیرون ملک ہوتا ہے، ہر سال خیال، خواب بن جاتا ہے، ہمارے خوابوں کی زندگی میں اتنی بے رونقی کہاں؟ اس مقدس مہینے میں کچھ دن اسلام آباد میں رہا، پہلے زمرد خان نے سویٹ ہوم میں افطاری کا بندوست کیا پھر اگلے دن آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور ہمدمِ دیرینہ سردار تنویر الیاس خان نے ایک گرینڈ ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا، پھر پی ٹی آئی کی رہنما شائستہ کھوسہ کے ہاں افطاری تھی، ہمارے ہاں افطاریاں بھی تقریبات کا روپ دھار لیتی ہیں ،اس کے بعد عمیر خان کنڈی کی طرف سے افطاری کا بندوست کیا گیا، ایک اور افطاری میں عامر ڈوگر،علی محمد خان ، شعیب شاہین اور علی بخاری سے ملاقات ہوئی ،ایک دن سعودی سفیر نے بڑے افطارڈنر کا بندوست کر رکھا تھا، اسی دوران میں نے برادرِ عزیز ندیم افضل چن اور سید ذیشان علی نقوی سے معذرت کی کیونکہ میں پہلے ہی کسی سے وعدہ کر چکا تھا، اس سے اگلے دن میرے لئے اور بھی مشکل مرحلہ تھا، ایک ہی وقت میں تین مختلف تقاریب تھیں، تینوں کا وقت ایک ہی تھا، موضوع فلسطین، شہداء کی تکریم اور غزہ تھا، سب سے پہلے مجلس وحدت المسلمین کی تقریب میں چلا گیا جہاں اسٹیج پر علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ پیر ڈاکٹر نور الحق قادری، صاحبزادہ حامد رضا، خواجہ مدثر تونسوی، مفتی گلزار احمد نعیمی اور سید ناصر عباس شیرازی جیسی جید شخصیات موجود تھیں، مجھے بھی مظاہر شگری اسٹیج پر لے گئے اور وہیں جلوہ افروز کر دیا، یہاں ارضِ فلسطین پر گفتگو تھی ،اس کے بعد علامہ افتخار حسین نقوی کے ہاں "تکریم شہداء" پروگرام میں چلا گیا، جہاں سید نئیر حسین بخاری، فیصل کریم کنڈی، سید انتصار حسین نقوی، صاحبزادہ علی عمار اور سید مدثر بخاری سمیت کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی، یہاں سے تیسری تقریب میں پہنچا، جہاں ڈیجیٹل میڈیا ایسوسی ایشن کے صدر رضی الرحمٰن طاہر نے اسلام آباد کے ڈیڑھ سو کے قریب نوجوان صحافیوں کو جمع کر رکھا تھا، یہاں موضوع غزہ تھا، اس سے اگلے دن میں نے اسلام آباد میں کسی سے وعدہ نہ کیا کیونکہ مجھے راولپنڈی جانا تھا، جہاں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے خصوصی افطاری کا بندوست کر رکھا تھا، یہاں ایس اے زاہد کی ہمراہی میں ہمارے جنگ کے نوجوان رپورٹر آصف علی شاہ کے ساتھ جانا ہوا، یہاں ظفر ہاشمی سمیت کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی، بریگیڈیئر غضنفر اقبال بڑے تپاک سے پنجابی کھلے ڈھلے اسٹائل میں ملے، ہم نے بریگیڈیئر شاہد محمود کو بہت مس کیا، وہ کسی وجہ سے نہ آ سکے، کرنل قمبر رضا کافی دیر ہمارے ساتھ بیٹھے رہے، یہ ہمارے پرانے دوست بریگیڈیئر صولت رضا کے صاحبزادے ہیں، ہمارا آبائی علاقہ ایک ہی ہے جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا علاقہ مانانوالا شیخوپورہ ہے۔ میں نے ہفتے کے روز اسلام آباد کے دوستوں، سفیروں اور اراکین اسمبلی سمیت سب کو جواب دیا کیونکہ ہفتے کی شام پیر ضیاء الحق نقشبندی نے الامین سی ایس ایس اکیڈمی لاہور میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا، یہ تقریب دوستوں کے لئے تھی، میرے پرانے اور پیارے دوست سہیل وڑائچ اور سلمان غنی کو حال ہی میں قومی اعزازات سے نوازا گیا ہے جبکہ ہمدمِ دیرینہ عطاء الحق قاسمی کی شخصیت پر لگنے والے داغ کو عدل کے ذریعے دھو دیا گیا ہے، ان تینوں شخصیات سے متعلق کچھ نہ کچھ گفتگو کرنا تھی، گفتگو کرنے والوں میں مجیب الرحمٰن شامی، اوریا مقبول جان، صغریٰ صدف، حبیب اکرم، قاسم علی شاہ، محسن بھٹی، شاہد قادر، حافظ امیر علی اعوان، عبداللہ ملک ایڈووکیٹ اور اس خاکسار کے علاوہ چند اور دوست تھے، سہیل وڑائچ اور سلمان غنی کو بہت مبارک مگر ساتھ ہی حکومتی اداروں سے درخواست ہے کہ جب آپ ہمارے اہل دوستوں کو اعزازات سے نوازتے ہیں تو ان کے لئے الگ تقریب رکھا کریں جبکہ جن کو آپ ویسے ہی ایوارڈز دیتے ہیں ان کے لئے گرینڈ تقریب رکھ لیا کریں۔ رہی بات عطاء الحق قاسمی کی تو ان پر لگنے والے الزامات عدل سے دھل تو گئے مگر میرا مؤقف یہ ہے کہ الزام لگانے والوں کو بھی سزا ضرور ملنی چاہئے، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ الزام لگا کر کسی شخصیت کو داغدار کر دیں اور جو داغدار کرنے کا جرم کریں ان کا کوئی حساب ہی نہ ہو، یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اتوار کو نزول قرآن کے حوالے سے اندرون موچی گیٹ لاہور کی ایک بڑی مسجد میں تقریب تھی، اس تقریب کے روح رواں برطانیہ سے آئے ہوئے مستحسن صاحب تھے، یہاں پاکستان اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے قاریوں نے شاندار انداز میں تلاوت کی لیکن ایک مصری قاری نے قرات کا ایسا سماں باندھا کہ سب لوگ کھو کر رہ گئے۔ اس سے اگلے روز المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبد الرزاق ساجد نے افطار ڈنر کا اہتمام کیا، یہاں نواز کھرل اور حامد رضا پیش پیش تھے، یہاں بھی کئی دوستوں سے ملاقات ہوئی، سیاسی، سماجی اور صحافی دوستوں سے ملاقات ہو تو تین موضوعات پر گفتگو ضرور ہوتی ہے، سیاست پر بات ہوتی ہے ، سماج اور صحافت پر بھی۔ زندگی کی روشنی میں زندہ دلوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، یہ چراغ معاشرے میں نور بکھیرتے ہیں، ان تمام تقاریب کے کچھ نہ کچھ مقاصد تھے، کہیں یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنے کی بات تھی، کہیں سیاست میں جمہوریت کو بہتر بنانے کی گفتگو، کہیں لہو لہان غزہ کے لئے آوازیں، کہیں ارض فلسطین کے لئے صدائے احتجاج اور کہیں سماج میں بکھرے ہوئے دکھوں کیلئے مسیحائی کی باتیں۔ بقول فراز

شکوہِ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

تازہ ترین