کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ دنیا کا مزا لینا چاہتے ہیں، کچھ لوگ مگر اپنی کاوش اور کوشش سے دنیا کو اتنا خوبصورت، سہل اور حسین بنانا چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے لوگ پرامن، پرلطف زندگی گزاریں۔ وہ دنیا کو خوبصورت اور لوگوں خوشیاں تقسیم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی دنیا میں خانیوال کے قصبہ تلمبہ کا خاص نوجوان کام کر رہا ہے ویسے بھی تلمبہ کی نسبت ممتاز دینی شخصیات سے رہی ہے۔ خانیوال کے ایک چھوٹے قصبے سے تعلق رکھنے والا لوئر مڈل کلاس کا یہ نوجوان بغیر وسائل کے صرف اپنی عزم و ہمت اور جدوجہد سے اعلیٰ مقام تک پہنچا ہے۔ وہ اپنے اسکول کے زمانے میں ہی ساتھی مستحق طلبہ کی مدد کیلئے کوشش کا سلسلہ جاری رکھتا تھا، کسان گھرانے کے فرزند ہیں۔ انکی تعلیم ملتان میں ہوئی۔ ملتان کے ڈگری کالج سے گریجویشن کی اور ملتان یونیورسٹی سے لا کی ڈگری حاصل کی۔ تاریخی موچی دروازہ گراؤنڈ میں بھی ایک بڑا جلسہ اسی نوجوان کی قیادت میں ہوا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور غیر معمولی جلسہ تھا۔ موچی دروازہ کے گراؤنڈ کو بھرنا ، جو بڑی سیاسی جماعتوں کیلئے بھی آسان نہیں تھا، وہ کام اس نوجوان لیڈر نے کر دکھایا۔ انگریزی محاورے کے مطابق باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔ آج وہ برطانیہ میں مختلف حوالوں سے کام کر رہے، بے گھروں کو گھر، آنکھوں کے نور سے محروم لوگوں کو بینائی، بھوکوں کو کھانا، معذور افراد کو ویل چیئرز دے رہے ہیں بلکہ اب وہ خدمت کا سفر 23 ممالک میں پھیلا چکے ہیں اس نوجوان کا اسم گرامی عبدالرزاق ساجد ہے، وہ زمانہ طالب علمی میں معروف طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام (اے ٹی آئی) سے متعلق رہے۔ یہ اہل سنت فکر رکھنے والی تنظیم ہے،’’سیدی مرشدی یا نبی یا نبیﷺ‘‘ اسکا مشہور سلوگن ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مذہبی مزاج اور سوچ رکھنے والی اس نظریاتی طلبہ تنظیم نے نوجوان عبدالرزاق ساجد کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ پنجاب میں آخری طلبہ انتخابات محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں ہوئے تھے، تب اے ٹی آئی نے ملتان کے علاوہ بہاولپور، رحیم یار خان اور دیگر اضلاع میں اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ عبدالرزاق ساجد اے ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے پہلے مقامی سطح اور پھر ضلع خانیوال کے ناظم بنے، پھر وہ بتدریج اوپر کی طرف سفر کرتے رہے، صوبائی سطح پر ذمہ داریاں، صوبہ پنجاب کے ناظم اور آخرکار انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر منتخب ہوئے ۔ اے ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے عبدالرزاق ساجد نے جذباتی ٹکراؤ والی سیاست کے بجائے پختہ کاری اور ہوشمندی کیساتھ بنیادی ایشوز پر دیگر طلبہ تنظیموںمیں افہام وتفہیم اور امن قائم کرنیکی کوشش کی۔ تب طلبہ تنظیموں میں ٹکراؤ، تشدد، مارپیٹ وغیرہ معمول تھا۔ اے ٹی آئی نے مثبت اور پرامن کلچر پیش کیا۔ عبدالرزاق ساجد نے ملتان میں ایک بڑا طلبہ کنونشن منعقد کیا جس میں فرقہ واریت کے خاتمے اور نوجوانوں میں امن قائم کرنیکا فارمولا پیش کیا۔ یہ طلبہ کنونشن اتنا متاثر کن اور کامیاب تھا کہ نوابزادہ نصراللہ خان جیسے تجربہ کار بزرگ سیاستدان کو کہنا پڑا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا طلبہ کنونشن نہیں دیکھا۔ انجمن طلبہ اسلام کے مرکزی صدر کے طور پر عبدالرزاق ساجد صرف سیاست کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ انکے عزائم بلند اور اہداف بڑے تھے، وہ کسی نہ کسی طرح انگلینڈ چلے گئے۔ بتاتے ہیں کہ وہاں پہنچا تو جیب میں کل چند سو روپے اثاثہ تھا۔ محنت کی، مختلف چھوٹی بڑی ملازمتیں کیں۔ وہاں پر المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے کام کو بڑھایا اور مختلف چیریٹی پروجیکٹس میں لگے رہے۔ انکے کام نے انکی ساکھ بنائی اور لوگوں نے بخوشی عطیات دینا شروع کر دئیے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ تھوڑے عرصے میں حیران کن کامیابیاں حاصل کرنیوالا ایک چیریٹی ادارہ ہے۔ آج المصطفیٰ 23ممالک میں ہے۔ انگلینڈ میں اسے بڑی چیریٹی آرگنائزیشن سمجھا جاتا ہے، ایک کروڑ پاؤنڈ سالانہ کے قریب عطیات وہ جمع کرتے اور مختلف پراجیکٹس میں مستحق لوگوں کی خدمت پر خرچ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے بہت سے پروجیکٹ چل رہے ہیں۔
دو لاکھ سے زیادہ لوگوں کی آنکھوں کے آپریشن ہوچکے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کی مدد کیلئے بھی المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ زور شور سے کام کر رہا ہے، غزہ کے مظلوموں کے سحر اور افطار کیلئے عبدالرزاق ساجد کی کاوش سے قاہرہ میں المصطفیٰ ٹرسٹ اور ریڈ کریسنٹ مصر کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے ، جس کے تحت غزہ کے بیس ہزار روزے داروں کو روزانہ سحری، افطار میں کھانا تقسیم ہواہے۔ جیو نیوز کےمعروف و مقبول پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ میںہر دل عزیز سہیل وڑائچ نے عبدالرزاق ساجد کا انٹرویو شامل کیا۔ سہیل صاحب نے پاکستان، برطانیہ اور مصر میں ساجد صاحب کیساتھ سفر کیا اور ان کے پراجیکٹ کو تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انٹرویو دلچسپ تھا ، جس سے کئی سبق حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ سہیل صاحب کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ مسجد اقصیٰ کے آس پاس محلوں میں غریب مسلمانوں کے گھر آباد ہیں، وہ مالی مشکلات کا شکار ہیں، مگر بیت المقدس کی محبت میں وہ اپنے گھر نہیں بیچ رہے ، حالانکہ یہودی سرمایہ کار ان گھروں کے عوض کئی ملین ڈالر دینے کو تیار ہیں۔ المصطفیٰ ٹرسٹ نے مسجد اقصیٰ کے ذمہ داران کی معاونت سے مقامی مسلمان ہمسایوں کوفی کس دو ہزار ڈالر کے واؤچر دینے کا کام شروع کیا ہے، ان واؤچرز سے مخصوص اسٹورز سے ضرورت کا سامان خریدا جا سکتا ہے۔ اس سے ان مالی بدحال مگر نیک نیت، پرعزم فلسطینی گھرانوں کی مدد ہوگی۔ عبدالرزاق ساجد کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ اس پروجیکٹ کو یوں کھڑا کیا جائے کہ آٹومیٹک سسٹم بن جائے اور یہ مستقبل میں بھی اسی طرح چلتا رہے۔المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ جیسی روشن مثالوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔