• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ اظہاریے میں ایک جملہ لکھا کہ ’پاکستان کی ریاست اگست 1991 کے سوویت یونین میں کھڑی ہے۔ سابق ہیئت مقتدرہ اور موجودہ ریاستی بندوبست میں خلیج پیدا ہو چکی ہے‘۔ ملفوف اشارہ تھا مگر پڑھنے والے کی نگہ تیز بین سے خبردار رہنا چاہیے۔ ایک عزیز محترم نے اسی بیان پر انگلی رکھ کر وضاحت مانگ لی۔ معیشت اور سیاسی اختیار کی حرکیات میں چند بنیادی نکات سمجھنا ضروری ہیں۔ جس ریاست میں فیصلہ سازی پر عوام کو اختیار نہ ہو، وہاں حتمی اقتدار بالآخر عسکری قوت کے قبضے میں آ جاتا ہے۔ اس میں زار کے روس، مغل سلطنت، سلطنت عثمانیہ، ایرانی ملائیت یا اشتراکی ممالک کی کوئی تخصیص نہیں۔ اقتدار پر ایسی اجارہ داری وسائل کی تقسیم پر اثر انداز ہوتی ہے اور قومی وسائل عوامی بہبود کی بجائے ایک خاص گروہ پر خرچ ہوتے ہیں۔ دنیا کی کوئی فوج بحیثیت مجموعی کاروبار سیاست نہیں سنبھال سکتی کیونکہ اسے پیشہ ورانہ معاملات بھی دیکھنا ہوتے ہیں۔ چنانچہ عثمانیہ سلطنت میں ینی چری نمودار ہوتے ہیں۔ سوویت یونین میں NKVD اور KGB کا ظہور ہوتا ہے۔ مشرقی جرمنی میں سٹاسی پنجے گاڑ لیتی ہے۔ ایران میں ساواک اور بعد از انقلاب پاسداران باقاعدہ فوج پر غالب آ جاتے ہیں۔ جمہوری بندوبست میں بھی سی آئی اے اور ایم آئی سکس وغیرہ موجود ہوتے ہیں اور ان اداروں کی سرگرمیاں اخفا کے پردے میں جرم اور سازش سے خالی نہیں ہوتیں تاہم عوام کی نمائندہ قوتیں سیاست اور معیشت میں حتمی فیصلہ سازی پر منتخب اداروں کی بالادستی کو یقینی بناتی ہیں۔ جواب دہی سے بے نیاز ڈیپ اسٹیٹ سے دو نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ معیشت ابتدائی مرحلے میں غیر متوازن ہوتی ہے اور پھر جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ جواب دہی نہ ہو تو پیشہ ورانہ اہلیت ناگزیر طور پر زوال پذیر ہوتی ہے اور بدعنوانی کا راستہ کھل جاتا ہے۔ یہ بدعنوانی جن پیوستہ معاشی مفادات کو جنم دیتی ہے وہ ایک ہشت پا کی طرح قوم کے معاشی اور تمدنی ارتقا کو جکڑ لیتے ہیں۔

سوویت یونین کی مثال لیجیے۔ 1970ءمیں سوویت یونین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سپر پاورتھا لیکن طویل ریاستی استبداد سے قومی توانائی خوف کی چادر تلے سرگوشی کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ 1964 میں برسراقتدار آنے والا بریژنیف سیاسی مدبر نہیں محض ایک اہلکار تھا۔ اشتراکی دنیا اور سرمایہ دار بلاک میں علمی اور معاشی خلیج بڑھنے لگی۔ عوام کا معیار زندگی جمود کا شکار ہو گیا۔ اشیائے ضرورت اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ مشرقی یورپ پر گرفت ختم ہونے لگی۔ وسطِ ایشیا کی ریاستیں ایک ایک کر کے علیحدہ ہو رہی تھیں۔ کریملن کی پرانی قیادت سمجھتی تھی کہ یہ بحران گورباچوف کے پرسٹرائیکا اور گلاس ناسٹ کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اگست 1991 میں کے جی بی اور قدامت پسند قیادت نے بغاوت کا فیصلہ کر لیا۔ گورباچوف کریمیا میں چھٹیوں پر تھا (واللہ یہاں پاکستان کے کسی اعلیٰ منصب دار کے دورہ قطر کی طرف اشارہ مقصود نہیں)۔ 18 اگست کو گورباچوف کو حراست میں لے کر اس کے تمام رابطے منقطع کر دیے گئے۔ ماسکو میں بورس یلسن عوام کے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ پارلیمنٹ کے باہر پہنچ گیا۔ تین روز تک افراتفری رہی۔ تین شہری مارے گئے لیکن بغاوت ناکام ہو گئی۔ 22 اگست کی صبح گورباچوف اپنے اہل خانہ سمیت ماسکو واپس آ گیا لیکن وہ اپنی سیاسی قوت کھو چکا تھا۔ اس کے بعد سوویت یونین کے انہدام میں محض چھ ماہ لگے۔

پرانی اور نئی قوتوں میں یہ تصادم ہر ایسی ریاست میں وقفے وقفے سے وقوع پذیر ہوتا ہے جہاں اختیار کے متوازی سرچشمے موجود ہوں۔ ایسی سیاسی بے یقینی میں معاشی ترقی کی پائیدار منصوبہ بندی نہیں ہو سکتی۔ اب کچھ عالمی معاشی حقائق دیکھ لیجیے۔ بھارت چار کھرب ڈالر سے زیادہ کے جی ڈی پی کے ساتھ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے۔ اگرچہ فی کس جی ڈی پی کافی کم ہے لیکن بھارت کی شرح نمو 6.3 فیصد ہے۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر بالترتیب جاپان اور جرمنی ہیں۔ جاپان کی شرح نمو ایک فیصد اور جرمنی کی شرح نمو 0.9 فیصد ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ آئندہ دو برس میں بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے۔ ہمارے جی ڈی پی کا کل حجم 377 ارب ڈالر ہے اور ہماری معیشت دنیا میں 41 ویں نمبر پر ہے۔ درویش بھی چاہتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ’چھ بہادر ججوں‘ کے خط پر بحث کی جائے۔ چیف جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے اقرار اور انکار کا تجزیہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا پخت و پز بیان کیا جائے۔ تاہم میری رائے میں اس ساری مشق کا نتیجہ موجودہ آئینی بندوبست کی ساکھ میں بارودی سرنگ لگانا ہے۔ اس میں عدالت عظمیٰ، حکومت، ریاستی اداروں اور سیاسی قوتوں کا دامن ناگزیر طور پر داغ دار ہو گا۔ یہ کھیل کھیلنے والے پورے نظام کو متنازع بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ صحافی مسلسل ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ حکومت پاکستان ’’افغان طالبان کو گلے لگا لے‘‘۔ یہ نہیں بتاتے کہ افغانستان معروف معنوں میں قومی ریاست نہیں بلکہ اس ملک پر قابض گروہ نے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ پاکستان کے علانیہ دشمنوں کو پناہ دے کر پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی سہولت کاری کر رہا ہے۔ یہ وہی مہربان ہیں جو نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور فضل اللہ سے معاہدہ چاہتے تھے، پاکستان کے جوانوں کی شہادت کو متنازع قرار دیتے تھے۔ اب تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری ریاست درپردہ طالبان کی حمایت کر رہی تھی۔ یہ نہیں بتاتے کہ 2002 سے 2015 تک طالبان کی خفیہ سرپرستی کی مخالفت کرنے والے ٹھیک تھے یا غلط؟ آج پاکستان مغربی دنیا کی ہمدردی بھی کھو چکا اور افغانستان سے بھی پھول موصول نہیں ہو رہے۔ ہماری سیاسی بے یقینی، معاشی بدحالی اور مغربی سرحد پر دہشت گردی ایک ہی مسئلے کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا الزام دوسروں کو دینے کی بجائے فیصلہ کرنا چاہیے کہ پیوستہ ہیئت مقتدرہ کے ازکار رفتہ خیالات سے جان چھڑانا ہے یا تاریخ کے اس اندھے موڑ پر ناقہ لیلیٰ بدستور اندھیری رات میں بھٹکتا رہے گا۔

تازہ ترین