• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پاکستان شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 45 ویں برسی آج ہم ایسے موقع پر منا رہے ہیں ، جب ان کے عدالتی قتل کے حوالے سے ایک صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے یہ قرار دیا ہے کہ شہید بھٹو کے مقدمے کا ٹرائل شفاف نہیں تھا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نے اس ریفرنس کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی دیئے کہ اس وقت کی عدلیہ نے ڈر اور خوف میں بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے یہ بھی کہا کہ عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہئے ۔ عدلیہ ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے9 رکنی بینچ کے متفقہ فیصلے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ شہید بھٹو کا عدالتی قتل ہوا ہے اور انہیں ایک ایسے جرم کی سزا دی گئی ہے ، جس کا انہوں نے ارتکاب ہی نہیں کیا تھا ۔ اس سے شہید بھٹو کی وہ بات بھی درست ثابت ہو گئی ہے ، جو انہوں نے تختہ دار پر کھڑے ہو کر کہی تھی کہ اے خدا میری مدد فرما ، میں بے قصور ہوں ۔ ہمارے مذہب اسلام کے مطابق جس شخص کو بے گناہ قتل کیا جائے ، وہ شہید ہوتا ہے ۔ آج 45 ویں برسی کے موقع پر وہ تمام لوگ بھی حق بجانب قرار پائیں گے ، جو شروع سے ہی ذوالفقار علی بھٹو کے نام کے ساتھ لفظ’’ شہید ‘‘بولتے اور لکھتے آئے ہیں اور پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے بھی اس امر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ بھٹو شہید ہیں ۔ اس بات کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے ، جنہوں نے اپنے سابقہ دور صدارت 2011 ء میں آئین کے آرٹیکل ۔186 کے تحت شہید بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کی رائے جاننے کے لیے ایک ریفرنس دائر کیاتھا ، جس کی وجہ سے عدلیہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور تاریخ کے اس فیصلے کو تسلیم کیا کہ شہید بھٹو بے گناہ تھے اور بے گناہ ہیں ۔ اگرچہ اس غلطی کا ازالہ نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شہید بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ نہ تو کالعدم ہو سکتا ہے اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود ہے ،لیکن اس فیصلے سے دنیا کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ شہید بھٹو کا عدالتی قتل کتنی بھیانک غلطی تھی ، جس کا خمیازہ آج پاکستان بھگت رہا ہے ۔ شہید بھٹو نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تاریخ میں بدلہ یا انتقام (Retribution ) جیسی کوئی چیز ضرور ہوتی ہے ۔ اب جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے ، یہ شاید تاریخ کا انتقام ہے ۔ اگر شہید بھٹو کو پھانسی نہیں دی جاتی تو آج پاکستان کے حالات یہ نہ ہوتے ۔ شہید بھٹو نے اپنی کتاب’’ اگر مجھے قتل کیا گیا ‘‘میں ایک جگہ لکھا کہ’’ اگر مجھے قتل کیا گیا تو ہمالیہ خون کے آنسو روئے گا ۔‘‘ اس وقت شہید بھٹو کے مخالفین نے یہ بیانات دیئے تھے کہ ’’ پہاڑ کبھی نہیں روتے ۔‘‘یہ بیانات اخبارات میں بھی شائع ہوئے تھے ۔ مگر تاریخ نے دیکھا کہ صرف ہمالیہ ہی نہیں ، قراقرم ، ہندو کش اور سلیمان کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع پوری وادی سندھ یعنی پورا پاکستان دہشت گردی ، خونریزی اور بدامنی کا شکار ہے اور ہر طرف سے ماتمی صدائیں گونج رہی ہیں ۔ وادی سندھ کے سارے پہاڑی سلسلے رو رہے ہیں ۔ اس بدامنی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ہر طرف غربت ، افلاس اور بے روزگاری ہے ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اس صورت حال سے پاکستان کو بچانا چاہتے تھے ۔ بس یہی ان کا’’ جرم‘‘تھا ۔ شہید بھٹو پاکستان کو ایک خود مختار اور جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے ۔ ان کی سیاست کا محور یہ تھا کہ پاکستان عالمی طاقتوں کے مفادات کا آلہ کار نہ بنے کیونکہ یہ تباہی کا راستہ ہے ۔ پاکستان غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسی عالمی دباؤ میں آئے بغیر اپنے قومی مفادات کے مطابق اپنے فیصلے خود کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے ، جب پاکستان میں حکومتوں کی تشکیل جمہور کے فیصلوں سے ہو اور جمہوریت کی اصل روح مساوات ہے ۔ شہید بھٹو کا یہ فلسفہ تھا کہ پسے ہوئے اور مظلوم طبقات کو حقوق دلائے بغیر ایک حقیقی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا ۔ شہید بھٹو کا یہی ’’گناہ ‘‘ تھا کہ انہوں نے پاکستان کی غیر جمہوری اشرافیہ کی سامراج نواز پالیسیوں کی تباہ کاریوں سے ملک کو بچانے کے لیے کوششیں کیں اور ان کوششوں میں انہوںنے عوام کو اپنے ساتھ شریک کیا ۔ شہید بھٹو کا ’’ قصور‘‘ یہ تھا کہ وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیتے تھے ۔ موت کی کال کوٹھڑی سے اپنی سب سے پیاری بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا کہ’’ زندگی محبت کاملہ ہے ۔ فطرت کی ہر خوبصورتی کے ساتھ عشق کیا جاتا ہے ۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہے کہ میرا سب سے زیادہ جذباتی عشق اور جذبات خیز یا جسم میں جھرجھری پیدا کردینے والا رومانس عوام کے ساتھ رہا ہے ۔‘‘ شہید بھٹو نے اپنے ملک کی خود مختاری اور غریب عوام کے حقوق کے لیے اپنی زندگی کی پروا نہیں کی ۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے ملکی اور عالمی استحصالی قوتوں کو چیلنج کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیاء ، افریقا اور لاطینی امریکا کے عوام کے لیڈر بن گئے ۔ وہ ان استحصالی قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے تھے ۔ اس لیے 4 اپریل 1979 ء کا سانحہ برپا کیا گیا ۔ شہید بھٹو نے یہ موت اس لیے قبول کی تھی کہ’’ وہ تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے آمر کے ہاتھوں مرنا پسند کریں گے۔ ‘‘ صدارتی ریفرنس کے فیصلے سے شہید بھٹو تاریخ میں امر ہو گئے ہیں ۔وہ تاریخ میں آج بھی زندہ ہیں اور انہوں نے اپنے قاتلوں کو تاریخ کی عدالت میں کھڑا کر دیا ہے ۔ تاریخ کا ٹرائل ہمیشہ شفاف ہوتا ہے ۔اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ عدالت پر دباؤ کس نے ڈالا تھا اور عدالت کو کس کا ڈر اور خوف تھا ؟ ان لوگوں یا ان قوتوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے تاکہ تباہی کے اس عمل کو روکا جا سکے ، جس کو جاری رکھنے کے لیے استحصالی قوتوں نے شہید بھٹو کے مقدمے کا فیئر ٹرائل نہیں ہونے دیا اور انہیں پھانسی دے دی ۔ اب اگرچہ عدالت نے یہ قرار دے دیا ہے کہ شہید بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ، اس کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی انتقام کی بجائے شہید بھٹو کے اس فلسفہ پر کاربند ہے کہ پرامن جمہوری عمل کے ذریعہ ملک اور عوام کے مسائل کو حل کیا جائے اور شہید بھٹو کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام خط میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ میں اپنے بچوں کی خاطر اور ساری دنیاکے بچوں کی خاطر مسئلے کے آخری حل سے پہلے مفاہمت کا خواہاں ہوں ۔‘‘ جس آخری حل کی بات شہید بھٹو نے کی ہے ، یہ پرامن جمہوری جدوجہد کی بجائے لڑائی والا راستہ ہے ۔ اس آخری حل سے بچنے کے لیے لازمی طور پر ان قوتوں کو بے نقاب کرنا ہو گا ، جو جمہوری عمل میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں یا سیاست میں مداخلت کرکے تاریخ کے دھارے کو روکنے کا خطرناک کھیل کھیلتی ہیں۔ یہ وہی قوتیں ہیں ، جنہوں نے شہید بھٹو کے مقدمے کا شفاف ٹرائل نہیں ہونے دیا۔

تازہ ترین