پچھلے ہفتے طالبان کی اصلیت کے عنوان سے کالم چھپا اور ہرطرح کے پیغامات اور ردعمل کی بھرمار ہوگئی۔ بے شمار لوگوں نے سراہا ایک صاحب نے لکھا ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘ مرتضیٰ ملک صاحب نے سینٹ لوئیس ریاست مظیوری سے اپنے ایک دوست کے بھائی کے اغوا کا قصہ لکھا جس کو طالبان نے اس وقت تک الٹا لٹکا کررکھا جب تک ان کو رقم نہیں مل گئی جو بڑی مشکل سے جمع کی گئی۔ بریگیڈیئر فاروق حمید خان صاحب نے لاہور سے ایک میٹنگ کا احوال بھیجا جو ان کے مطابق19فروری کو خورشید قصوری صاحب کے گھر میں ہوئی اور جس کی مجیب شامی صاحب نے صدارت کی۔قصوری صاحب نے پاکستان فورم کے نام سے یہ اجتماع کیا اس فورم میں لاہور کے کئی اہم نام شامل ہیں جیسے پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر ہمایوں احسان، حسن نثار ، سہیل ورائچ، بیگم مہناز رفیع، سعید عباسی، امیر خاکوانی،سلیم بخاری، سلمان عابد، سجادمیر، عامرغوری، مظہر قیوم، میاں سیف، ارشادعارف اور کئی دوسرے۔ فاروق حمید خان کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی صورتحال پر کھل کر بحث ہوئی اور واضح راستے سب کونظر آئے ایک یہ کہ تمام طالبان کے گروپوں کے ساتھ بات کی جائے اور اس کے لئے ملّاعمر سب سے اہم ہیں لیکن یہ راستہ شاید پاکستان کوقبول نہ ہو۔ دوسرا راستہ طالبان سے لڑائی اورخاص کر جاسوسی اور اطلاعات پر انحصار جس کے لئے امریکہ اور کسی حد تک افغانستان سے مدد لینی ہوگی۔یہ اتفاق ہوا کہ اگر ہمارے فوجی اور پینٹاگون ایک صفحے پر آگئے تو معاملات آسان ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاع دی گئی اس فورم میں کہ40سے50دن کے بھرپور آپریشن کی تیاری ہورہی ہے اورپنجاب میں جولوگ بھاگ کر آئیں گے ان کےلئے راشن اور جگہوں کابھی انتظام جاری ہے۔ سب سے اہم بات جو کہی گئی وہ یہ کہ کم از کم2مہینے کے لئے ایمرجینسی لگانا اشد ضروری ہوگا ۔کسی آپریشن کے لئے عوام کی مکمل تائید ضروری ہی نہیں شرط اول ہوگی۔ سب کو مل کر اور اس میں میڈیا کا رول سب سے اہم ہے۔ طالبان کاخوف لوگوں کے دلوں سے نکالنا ہوگا۔سب کوبتاناہوگا کہ اس طرح کی لڑائی میں ہرشخص کوہر جگہ ایک سپاہی کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لئے میڈیا پر لوگوں کوچوکس رہنے اور دہشت گردوں کے عزائم ناکام کرنے میں بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔ سب سے مزیدار،ہاں مزیدارہی لکھنا چاہئے ردعمل جو مجھے موصول ہوا، وہ کینیڈا سے منظور قریشی صاحب کاتھا لیکن ان کے بارے میں آگے چل کر لکھتا ہوں پہلے مجھے لندن کا وہ واقعہ یادآرہا ہے جن دنوں لندن میں روزبم دھماکے ہوتے تھے اور یہ سال تھا1975ء کا۔ میں پہلی دفعہ لندن گیا تھا اور ان دنوںIRAکی لڑائی زوروں پر تھی اور لندن میں کوئی جگہ محفوظ نہیں تھی۔ میری بھی جوانی کے دن تھے تو پکاڈلی سرکس کے وسط میں ہوٹل میں کمرہ لیا تھا۔ سخت سردیاں تھیں مگر اپنا سوٹ کیس اور بیگ اٹھائے جب آدھا میل چل کر ہوٹل پہنچا تو پسینے پسینے ہورہا تھا۔ ظاہر ہے لندن کی ٹیوب سے ہوٹل ٹیکسی میں جانا مشکل تھا کہ بہت پیسے لگتے تھے۔ جیسے ہی ہوٹل کے اندرداخل ہواگرمی سے جان میں جان آئی اور سوٹ کیس لابی میں دروازے کے پاس چھوڑ کر کمرہ لینے ہال کے دوسری طرف چلاگیا۔ ابھی میں دوتین منٹ ہی وہاں کھڑا ہوکر فارم بھررہا تھا کہ ہر طرف سائرن بجنا شروع ہوگئے اور بھگدڑ مچ گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہورہا ہے پھر پولیس اندر آگئی اور ہرایک شورمچانے لگا کہ یہ سوٹ کیس کس کا ہے۔ جب احساس ہوا کہ کیا ہورہا ہے تو کائونٹر پرگوری لڑکی نے مجھے دیکھا اور اجنبی لگ رہا تھا پوچھا میرا سوٹ کیس کہاں ہے جیسے ہی میں نے مڑکر دروازے کی طرف دیکھا وہ سمجھ گئی کہ نیا بندہ ہے پولیس کوسوٹ کیس کے پاس دیکھ کرمیں بھی اس کی طرف بھاگا۔ جب میں نے اسے اٹھایا توسب لوگوں کی جان میں جان آئی۔ پولیس والے پوچھنے لگے کہ میں کیوں چھوڑ کرگیا۔ جواب ظاہر ہے عیاں تھا کہ سردی میں ٹیوب اسٹیشن سے کھینچ کرلایا تھا اور چیک ان کررہا تھا۔ خیر معاملہ ٹل گیا مگر اگلے دس دن کیلئے سبق مل گیا کہ کوئی بیگ اور کوئی چیز بغیر مالک کے پڑی ہوئی نظر آئے تو پولیس کواطلاع کرنی ہے۔ یہ تھی وہ لندن کے شہریوں کی تیاری جوانہوں نےIRA سے نمٹنے کیلئے کی تھی یہی طریقہ پاکستان کے لوگوں کوبھی سیکھنا پڑے گا۔کوئی مشتبہ شخص نظر آئے کوئی ڈبہ بیگ یا تھیلا پڑا ہوا ملے فوراً پولیس کوبلایا جائے ۔ عام لوگوں کی شراکت کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑی ہی نہیں جاسکتی اور اگرآپریشن ہوگا تو پھر دھماکے اور خودکش بمبار توآئیں گے، لوگوں کوجان اور مال کی قربانی بھی دینی ہوگی لیکن یہ عفریت اس کے بغیر مرے گا بھی نہیں۔
لگ یوں رہا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اب اس بات پر تیار ہیں کہ مذاکرات کوئی حل نہیں، اس لئے کہ طالبان کوئی معقول بات کرنے کے قابل ہی نہیں۔ جب ان کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو اپنا ترجمان اور لیڈر بنایا گیا توبات سمجھ میں آگئی کہ ان لوگوں کا کیا ارادہ ہے۔مولانا صاحب اب جتنے بھی معتبر ہیں ،ہیں توپرانے والے مولانا ہی۔ اور ان کے بارے ہی میں جو کینیڈا سے منظور قریشی صاحب نے اطلاع اور اپنے گزرے ہوئے دنوں کے واقعات بتائے وہ چٹخارے دار ہی نہیں تھے بلکہ شرمندہ کرنے کو کافی تھے۔ منظور قریشی صوبہ سرحد میں ایک سیاسی پوزیشن رکھتے تھے۔ وہ خود اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے بچپن کے ساتھی ہیں۔ کہتے ہیں میں سمیع الحق کوبہت مارتا تھا پھر وہ کینیڈا چلے گئے اور واپس آکر سیاست میں آئے تو مسلم لیگ جونیجو اور قائداعظم اور شیرپاؤ کی پارٹیوں میں گھومتے پھرتے رہے اور صوبائی صدر تک بن گئے۔ کینیڈا کا لوکل دیسی میڈیا بھی ان کو خاصی اہمیت دیتا ہے اور ان کے کئی انٹرویو یوٹیوب پر بھی موجود ہیں۔ باتیں کھری کھری کرتے ہیں اور مجھے جو دوقصے سنائے وہ مولانا سمیع الحق کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بتا گئے۔ قریشی صاحب کہتے ہیں میں اکثر مولانا سے ملنے اکوڑہ خٹک ان کے دارالعلوم جاتا تھا ۔ کبھی تو وہ فوراً مل لیتے تھے مگر اکثر وہ ٹال جاتے تھے اور ان کے لوگ قسم کھا کر کہتے تھے آج مولانا اسلام آباد میں ہیں یا کوئٹہ میں یا لاہور میں۔ تو ایک دن ان کے مطابق انہوں نے یہ مسئلہ حل کرلیا۔ کس طرح ان کے خاص آدمی کوتیار کرلیا کہ بتائے کہ مولانا کیوں نہیں ملتے۔ تواب شروع ہوتی ہے چٹخارے دار چاٹ، یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا یا مزاحیہ اس بات کا فیصلہ قارئین کریں۔قریشی صاحب نے مجھے لکھ کر بھیجا کہ مولانا نے چار کمروں کے نام لاہور، کوئٹہ، اسلام آباد اور کراچی رکھے ہوئے تھے اپنے مدرسے کے ہی اندر۔ جب کسی سے نہ ملنا ہو وہ فوراً کسی ایک کمرے میں چلے جاتے تھے اور ان کے لوگ قسم کھا کر کہتے تھے کہ وہ آج اس وقت کراچی میں ہیں یا لاہور میں۔قریشی صاحب نے تو یہ راز افشا کردیا مگر جھوٹ بہ گردن راوی ۔