• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کیا ساری زندگی بس یقین دلاتے ہی گزر جائے گی…؟؟‘‘

’’مَیں اچھی بیٹی ہوں‘‘ ثابت کرنے کے لیے پُکارسے پہلے ہی ’’جی، امّی…آئی امّی‘‘، ’’جی، ابی جی…آئی ابّو‘‘ کہنا لازم ٹھہرا۔ کاندھے جھکاکے، چادر کی بُکّل مار کے سمٹی سمٹائی پِھرنا ہی اچھی بیٹی ہونے کا پیمانہ ہے، خواہ پھرعُمر بھر کبھی سیدھا چلنا ہی نہ آئے۔ باپ، بھائیوں سے پہلے کھانے پینے کا سوچنا بھی نہیں۔ بیٹوں کی سب ضرورتیں، خواہشیں پوری ہونے کے بعد بیٹیوں کی طرف متوجّہ ہونے پر بھی خوش، مطمئن، قانع رہناہی ایک اچھی بیٹی ہونے کی نشانی ہے…؟؟

بھائی لڑکا ہے، وہ سب کرسکتا ہے، اچھی بہنیں کبھی بھائیوں کا مقابلہ نہیں کرتیں۔ بھائی سب گیمز کھیل سکتا ہے، دوڑ میں حصّہ لے سکتا ہے۔ اچھی بہنیں، بھائیوں کی جیت کی دُعا کرتی ہیں، کبھی خُود دوڑنے کا خیال بھی ذہن میں نہیں لاتیں۔ 

بھائی پڑھ رہا ہے، اُسے کھانا، چائے کمرے میں دے آؤ۔ صبح پیپر ہے، تو رات جلدی کچن سمیٹ کر پڑھنے بیٹھ جانا۔ بھائی کے لیے کے۔ جی، نرسری جماعت ہی سے کسی کلاس فیلو لڑکی کانام لینا کوئی عجیب بات نہیں۔ اچھی بہنیں، بھائیوں کی سب کارستانیوں، کارناموں پہ پردے ڈالتی ہیں، کبھی بھول کے بھی اُن سے کوئی تحریک حاصل نہیں کرتیں۔

ایک اچھی بیوی، آنکھ بند کرکے شوہر کی ہر بات پر ’’آمنا وصدقنا‘‘ کہتی ہے، شوہر کے ماضی کے جھوٹے، سچّے افیئرز بھی ہنس ہنس کے سُنتی ہے۔ ایک اچھی بیوی اگر نوکری کرتی ہے، تو اُس کی ذمّے داری ہے کہ وہ گھر کو بھی بہترین انداز سے مینیج کرے، کسی گھریلو عورت سے بھی زیادہ بہتر، کیوں کہ ایک تو وہ پڑھی لکھی ہے۔ 

دوم، اُسے ملازمت کی اجازت دی گئی ہے۔ ایک ورکنگ وومین جب تک گھر اور باہر دونوں جگہ ’’پرفیکٹ‘‘ نہ ہو، وہ اچھی بیوی کہلا ہی نہیں سکتی، خواہ اِس بات کا یقین دلاتے دلاتے اُسے روزانہ میک اَپ کی تہوں میں ماتھے، چہرے کی کتنی گہری، اذیّت بَھری شِکنوں، آنکھوں کے نیچے پڑے کتنے سیاہ حلقوں کو کیوں نہ چُھپانا پڑے۔ ایک اچھی بیوی کے لیے ہرہرقدم پھونک پھونک کےاُٹھانا اُتناہی ضروری ہے، جتنا اُس کے لائف پارٹنر کے لیے اُسے ہر وقت یہ احساس دلانا کہ وہ دنیا کی خوش قسمت ترین عورت ہے کہ اُسے اتنے کشادہ ذہن انسان کا ساتھ میسّر ہے۔

اور…ایک اچھی ماں…اِس پیمانے پر کم ازکم آج کی کوئی عورت تو مر کے بھی پوری نہیں اُترسکتی۔ اپنا تن من دھن وار کے بھی کوئی نہ کوئی کسر رہ ہی جاتی ہے۔ بیٹا دوستوں، کزنز کی ماؤں کی مثالیں دیتا نہیں تھکتا۔ وہ یہ کرتی ہیں، وہ، وہ کرتی ہیں اور آپ…!! بیٹی کو لگتا ہے، ماں کو گھر، ملازمت، بیٹے کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا، میرے لیے تو اُس کے پاس وقت ہی نہیں، مَیں اُس کی ترجیحات میں سب سےآخر میں آتی ہوں۔

’’زندگی کی چکّی میں پِستے پِستے اب تو ہڈیاں بھی گُھلنےلگی ہیں مولا!!کیا مَیں کبھی ’’اچھی‘‘ بن پاؤں گی…؟؟‘‘ وہ سجدے میں گِری گڑگڑا گڑگڑا کے اُس رب سے سوال کررہی تھی، جس کی ’’اچّھی بندی‘‘ ہونے کے لیے اُسے کبھی کچھ ثابت نہیں کرنا پڑا تھا کہ وہ تو دِلوں، نیّتوں کا سب حال جانتا ہے۔