• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر 45سال بعد 4مارچ 2024کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9رکنی بینچ نے بھٹو ریفرنس پر اپنے تاریخی فیصلے میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ’’ذوالفقار بھٹو کے کیس کی کارروائی منصفانہ ٹرائل اور انصاف کیلئے درکار ضروری تقاضوں کے مطابق نہیں تھی۔‘‘ زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو جنہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی اور اسے پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنایا۔ بھٹو نے مسلم امہ کے اتحاد کیلئے 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں شریک 38مسلم ممالک کے سربراہان کے نعرے ’’تیل بطور ہتھیار‘‘ نے مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ شہید بھٹو کو مغرب کیلئے خطرہ سمجھنے لگے۔

میں آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 45 ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ پنکی باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج کا دن ملاقات کا نہیں ہے۔ دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے۔

میں نے والدہ سے کہا کہ انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔جب میری والدہ ان سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچائواور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لائو۔ میری طبیعت ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز پر ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24گھنٹے مل گئے۔ بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3 اپریل کو بھٹو صاحب کے ساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔ اگلے روز ہم جیل پہنچے۔ میرے والد نے اپنی کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں ’’کیا یہ آخری ملاقات ہے‘‘؟ ہاں۔ ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘ ’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔’’کتنے بجے؟‘‘ ’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘ ’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘ ’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔ اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے۔ ’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔ ’’یہ میرے احکامات ہیں۔غسل اور شیو کرنے کیلئے انتظامات کرو۔‘‘ میرے والد اس سے کہتے ہیں۔ ’’دنیا خوبصورت ہے اور میںاسے اسی حالت میں الوداع کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔

صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔مجھے رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔وہ چند سگار جو ان کے وکلاء چھوڑ گئے تھے، میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘ شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا۔ ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔‘‘ وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، اگر چاہو تو پاکستان سے باہر چلے جائو اور اگر زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جائو، میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘ ممی کہتی ہیں۔نہیں نہیں’’ہم کبھی نہیں جائیں گے، ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے تو اس عوامی پارٹی، جس کی بنیاد آپ نے رکھی ہے، کی رہنمائی کیلئے کوئی نہیں ہوگا۔ سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اس سے کہتی ہوں۔

’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔‘میں اپنے پاپا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔ پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ ’’آج شب میں دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں ’’الوداع پاپا۔‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے ۔’’ ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں جاتے وقت مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی ۔ 4 اپریل 1979ء کو صبح صادق سے بھی بہت پہلے راولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا۔ خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔‘‘ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کی۔ افسوس کہ سیاسی دشمنی کی بنیاد پر ایک عظیم لیڈر ہم سے چھین لیا گیا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین