• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیام پاکستان سے قبل پشاور کے تھانہ ہشت نگری کی حدود میں ایک مشہور ہندو صنعتکار پریم چند کھنہ کے بیٹے رمیش کھنہ کے ہاتھوں ایک غریب مسلم گھرانے کے لڑکے کا قتل ہو گیا۔اس ہندو صنعتکار نے ایس ایچ او کو بھاری رشوت کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ایف آئی آر اور تفتیشی مواد اس طرح کا تیار کرو کہ میرا بیٹا بری ہو جائے لیکن ایس ایچ او تھانہ ہشت نگری گنڈا سنگھ نے انکار کرتے ہوئے کہا وہ صرف سرکار کے قانون اور میرٹ کے مطا بق کام کرے گا ۔ ایس ایچ او نے میرٹ پر چالان تیار کیا اور4 ماہ بعد سیشن جج نے رمیش کھنہ کو سزائے موت سنا دی جس کے خلاف ہندو صنعتکار اس وقت کے چوٹی کے وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہوئے پہلے ہائیکورٹ اور پھر اپیل کیلئے سپریم کورٹ تک گیا لیکن سزائے موت بر قرار رہی۔ گورنر سرحد سے رحم کی اپیل کی گئی جسے اس نے مسترد کر دیا اور پھر وائسرائے ہند نے بھی اس کی رحم کی اپیل مسترد کر دی۔ اسی دوران شہنشاہ برطانیہ کی تاج پوشی کا جشن قریب آ گیا جس پر اس وقت سرحد کے وزیر خزانہ مہر چند کھنہ اور سردار بلدیو سنگھ نے اپنا اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے لندن جانے کیلئے صنعتکار کو اس جشن میں شرکت کا دعوت نامہ جاری کرا دیا۔ شہنشاہ برطانیہ کیلئے یہ چونکہ خوشی کا موقع تھا اس لئے دربار شاہی کو جب بتایا گیا کہ پریم چند کھنہ نے چند سال میں تاج برطانیہ کو کئی لاکھ روپے چندہ دیا ہے تو جارج ہفتم کوپیش کی گئی پریم چند کھنہ کے بیٹے رمیش کھنہ کی رحم کی اپیل منظور کرلی گئی جس پر سزا کی منسوخی کا شاہی فرمان جا ری ہو گیا۔شاہی فرمان جاری ہوتے ہی پریم چند لندن سے پشاور پہنچا اور پھر ڈھول باجوں کے ساتھ اپنے بیٹے کو جیل سے گھر لے آیا۔کوئی3چار ہفتے بعد سب انسپکٹر گنڈا سنگھ اپنے عملے کے ساتھ پشاور کے کریم با زار میں گشت کررہا تھا کہ پریم چند کھنہ سے اس کا سامنا ہو گیا جس نے گنڈا سنگھ کو دیکھتے ہی زور سے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا'' اوئے گنڈا سنگھ دیکھ لیا اپنے قانون کی اوقات کو اب میں تمہاری یہ وردی اتروا کر تمہیں گھر بھجوا کر چھوڑوں گا۔گنڈا سنگھ نے اسی وقت گورنر سے وقت لینے کا فیصلہ کرلیا اور صبح10 بجے وہ گورنر سرحد جارج کننگھم کے سامنے کھڑا تھا۔اس نےسلیوٹ کرتے ہی اپنی پولیس بیلٹ اتار کر ان کی میز پر رکھ دی اور اپنا استعفیٰ گورنر کو پیش کر دیا جس کی وجوہ میں لکھا ہوا تھا، کیا آپ کی پولیس اور اس کا قانون اس حد تک بے بس ہو چکا ہے کہ ہمیں دفتروں اور تھانوں کے اندر جب چاہے ذلیل کیا جائے آپ کے قانون کو نا فذ کرتے ہوئے اگر ہم نے سر بازار رسوا ہی ہونا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ہم یہ وردی اتار کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ گورنر نے اسی وقت ہاٹ لائن پر وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن سے رابطہ کیاکہ اگر ہم نے اپنی ہی پولیس کے افسران کی عزت اور انہیں عطا کی گئی وردی کا خیال نہ رکھا تو ان میں بد دلی پھیل جائے گی جس سے تاج برطانیہ کی عزت و احترام میں بھی فرق آنا شروع ہو جائے گا۔وائسرائے ہند نے اپنی مجبوری بتاتے ہوئے کہا کہ اب وہ کس طرح شہنشاہ برطانیہ سے اس مسئلے پر بات کر سکتا ہے لیکن گورنرکے دیئے جانے والے مضبوط دلائل سنتے ہوئے اس نے تاج برطانیہ کو پریم چند کی گھٹیا حرکت، سب انسپکٹر پولیس کے استعفے کا حوالہ دیتے ہوئے ایک تفصیلی خط بھجوا دیا۔شہنشاہ برطانیہ جارج ہفتم کووائسرائے ہندکی یہ رپورٹ ملی تو تاج شاہی نے اپنی انا اور وقار کو ایک طرف رکھتے ہوئے رمیش چند کھنہ کی معافی کے جاری کردہ احکامات منسوخ کرتے ہوئے سزائے موت پر فوری عمل در آمد کا حکم جاری کر دیا۔

آج سندھ میں امن و امان کی صورتحال دن بدن بگڑتی جارہی ہے ،اندرون سندھ ڈاکوئوں کی سرگرمیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب یہ ملکی تجارت کیلئے بھی خطرہ بن گئے ہیں،قومی شاہراہ اور موٹروے بھی ڈاکوئوں سے محفوظ نہیں،دوسری طرف شہریوں سے تلاشی اور چیکنگ کے بہانے لوٹ مار کے واقعات بڑھ گئے ہیں ،ان پولیس اہلکاروں کے اوپر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں نظر آتا،ایسی صورتحال میں شہری ایک طرف ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں ،تو دوسری جانب پولیس میں شامل کالی بھیڑیں بھی ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتی نظر آتی ہیں ،پیپلز پارٹی کی سندھ میں گزشتہ 15برسوں سے حکومت ہے،ملک میں کسی جماعت کو اتنا طویل عرصہ مسلسل حکمرانی کا موقع نہیں ملا،ہونا تو یہ چاہئے کہ اس تسلسل کا صوبے کو فائدہ ہوتا،لیکن ایسا لگتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کے کلچرنے صورتحال بہتر بنانے کے بجائے مزید خراب کردی ہے ، صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی سیف سٹی پروجیکٹ پر عمل کرنے میں حکومت ناکام ہے ،جس کے تحت شہر میں لاہو ر اور اسلام آباد کی طرح کیمروں کا نیٹ ورک قائم کیا جانا تھا،تاکہ جرائم کی روک تھام کی جاسکے، کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کی سہولت کاری کے شبہ پر نگران دور میں وہاں سے تبدیل کئے گئے کچھ نچلے پولیس افسر اب پھر واپس پوسٹنگ حاصل کر رہے ہیں ،جب ایسے فیصلے ہوں گے تو امن کیسے قائم ہوگا ،سندھ حکومت بنتے ہی پی پی پی نے آئی جی سندھ کیلئے ایک بار پھر غلام نبی میمن کی وفاق سے تقرری کرائی ہے ، حالانکہ خود وزیر اعلیٰ کا گزشتہ روز بیان سامنے آیا ہے کہ سابقہ دور میں امن و امان کی صورتحال خراب ہوگئی تھی، کیا بہتر نہ ہوتا کہ غلام نبی میمن جن کے دور میں کراچی اور اندرون سندھ کے حالات خراب ہوئے ،ان کی جگہ کسی اورافسر کو صوبے کا آئی جی لگایا جاتا؟ امن وامان کی صورتحال کنٹرول کرنی ہے، تو پولیس کو سیاسی مداخلت اور سفارشوں سے پا ک کر کے آئی جی سے لے کر ایس ایچ او تک صوبے میں میرٹ پر تعینانیاں کرناہوں گی۔ ورنہ ایک طرف شہری لٹتے اور قتل ہوتے رہیں گے،تو دوسری جانب اس کی قیمت ملکی معیشت کو بھی ادا کرناپڑے گی،جو پہلے ہی بری حالت میں ہے۔

تازہ ترین