(گزشتہ سے پیوستہ)
لاہور ریلوے اسٹیشن سے لے کر دھرمپورہ ریلوے کراسنگ تک کا سارا علاقہ کبھی ریلوے کے پاس تھا ۔یہاں پر افسروں کی کوٹھیاں تھیں اور ایک ہیلتھ سینٹر بھی تھا جس پر 2015 تک پاکستان ویسٹرن ریلوے لکھا رہا یعنی پی ڈبلیو آر، کبھی یہاں نارتھ ویسٹرن ریلوے بھی لکھا ہوتا تھا۔ آج لاہور کے کئی قدیم ریلوے اسٹیشنوں پر این ڈبلیو آر کے لوہے کے لال رنگ کے انتہائی وزنی کیش اور قیمتی کاغذات رکھنے والے باکس پڑے ہیں۔ ان لال بکسوں کو پانچ سے چھ افراد مل کر اٹھاتے ہیں۔ ریلوے کے پاس خصوصاً لاہور کے پاس بہت بڑا قدیم اور تاریخی خزانہ ہے، دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ریلوے کا میوزیم لاہور کی بجائے ریلوے کے ایک سابق وفاقی وزیر نے گولڑہ شریف میں اپنے حلقے میں نئی عمارت میں بنا دیا حالانکہ لاہور میں ریلوے کے پاس بے شمار ایسی عمارات خالی پڑی ہیں جہاں پر ریلوے میوزیم بنایا جا سکتا تھا۔مثلاً ریلوے کا ناچ گھر جسے برٹ انسٹیٹیوٹ کہا جاتا ہے۔ یقین کریں یہ انتہائی خوبصورت عمارت ہے ۔اس کا شمار لاہور کی لال اینٹ کی خوبصورت ترین عمارات میں ہوتا ہے بلکہ اپنے فن تعمیر کے لحاظ سے یہ بالکل ایک منفرد عمارت ہے جہاں پر اب الو بولتے ہیں اور بھوتوں کا بسیرا ہے۔ تعمیراتی نقطہ نگاہ سے یہ انتہائی مضبوط اور خوبصورت عمارت ہے۔ ریلوے کے یہ گوروں کا کلب تھا جہاں پر تنبولہ ہوتا تھا۔ اس کو ہوزی HOZIبھی کہا جاتا ہے اس کی لکڑی کے فرش پر گورے اور اینگلو انڈین جوڑے کبھی رقص کیا کرتے تھے۔ گڑھی شاہو، وکٹوریہ پارک ،بیڈن روڈ ،لکشمی مینشن ،کوئینز روڈ ،میسن روڈ اور دیال سنگھ مینشن 1960تک اینگلو انڈین کے علاقے تھے ۔پھر آہستہ آہستہ لاہور سے یہ اینگلو انڈین ختم ہونا شروع ہو گئے اب تو مدت ہوئی کسی اینگلو انڈین کو دیکھے ہوئے۔ آخری اینگلو انڈین جو واقعی بڑا خوبصورت تھا اس کا نام ایل آر نیبلٹ تھا جو بطور پولیس سارجنٹ بھرتی ہوا اور ڈی آئی جی کے عہدے پر جا کر ریٹائر ہوا تھا۔
خیر جناب برٹ انسٹیٹیوٹ یعنی ریلوے ناچ گھر میں ہمیں اپنے والد کیپٹن( ر) محمد ادریس ناگی (مرحوم) کے ساتھ تنبولہ کھیلنے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا اور ہم نے کئی مرتبہ انعام بھی جیتا۔ اس میںآپ کو ایک چوکورکاغذ کے ٹکڑے پر نمبر بڑی تیزی سے کاٹنے ہوتے ہیں جن نمبروں کی اناؤنسمنٹ اسٹیج پر کھڑا شخص کرتا ہے یعنی بعض دفعہ وہ نمبرآپ کے اس چوکور کاغذ میں نہیں ہوتے تھے۔ بہرحال یہ بڑی ذہانت اور تیزی کے ساتھ کھیلنے والی ایک گیم ہے۔ لاہور کے کئی کلبوں اورکسی زمانے میں فوج کے کئی کلبوں میںتنبولہ ہوتا تھاشاید اب بھی کئی کلبوں میں تنبولہ ہوتا ہو گا۔
لاہور میں کلب کا کلچر انگریزوں نے متعارف کرایا، اس سے قبل لاہور میں خصوصاََاندرون شہر، جو 14دروازوں کے اندر ہے وہاں بڑے بڑے مکانوں اور حویلیوں میں بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کوآپ اس دور کی دیسی کلبس بھی کہہ سکتے ہیں جو ہم نے خود بھی دیکھی ہیں اور ان میں بیٹھے بھی ہیں۔ پھر حضوری باغ اور بھاٹی گیٹ سے لے کر لوہاری دروازے تک باغ میں داستان گو یا قصہ گو ہر شام کو آ کر بیٹھ جاتے تھے اور مختلف لوک داستانیں اور قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ بڑا خوبصورت کلچر تھا ان کو بھی آپ لاہور شہر کادیسی یا مقامی کلب ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہاں پر کوئی ممبر شپ نہیں ہوتی تھی بس لوگ بیٹھ گئے اور کسی ایک نے قصہ گوئی شروع کر دی۔ گورا بادشاہ جب پنجاب میں آیا تو اس نے لاہور میں سب سےپہلے باقاعدہ کلب بنانے کا سوچا۔ ریلوے برصغیر میں واحد سب سے بڑا محکمہ تھا جہاں پر کام کرنے والے ملازمین اور افسروں کے لیے گوروں نے کلب اور دیگر تفریحی سہولیات فراہم کی تھیں۔ برٹ انسٹیٹیوٹ جسے آج بھی گڑھی شاہو کے لوگ ناچ گھر کہتے ہیں 1913 میں یہاں قائم کیا گیا اس سارے علاقے کو مغل پورہ بھی کہا جاتا ہے، سڑک کے ایک جانب مغل پورہ اور دوسری جانب گڑھی شاہو اور محمد نگر ہے۔ یہ تمام بستیاں انگریزوں کے آنے سے قبل ہی یہاں موجود تھیں مغلپورہ مغلوں نے آباد کیا تھا، کبھی یہ علاقہ بڑا خوبصورت اور پرسکون تھا آج یہ شہر کا گنجان ترین اور گندا علاقہ بن چکا ہے۔ گوروں نے دوسرا کلب میو گارڈن میں قائم کیا تھا یہ اعلیٰ افسروں کے لیے تھا ،میوگارڈن میں آج بھی ریلوے کے اعلیٰ افسروں کی رہائش گاہیں ہیںیہ علیحدہ بات ہے کہ خسارے میں چلنے والے محکمے کے اعلیٰ افسر آج بھی شاہانہ انداز میں رہتے ہیں، اس میو گارڈن کلب کی قدیم عمارت تو کب کی ختم ہو چکی ہے، اب یہ شادی ہال یعنی بطور میرج ہال کے استعمال ہوتا ہے، اب اس میں انگریزوں کے زمانے والے کلب کی کوئی روایت اور بات نہیں، ہم نے کئی برس قبل اس کلب کو دیکھا ہوا ہے جب اس کی اصل عمارت موجود تھی۔ برٹ انسٹیٹیوٹ کی عمارت انتہائی خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی میوگارڈن میں بھی دو اولیائے کاملین کے مزارات ہیں حضرت بابا بہاری شاہ نوشاہی قادریؒ اور دوسرا حضرت بابا مستانہ شاہ نوشاہی قادری ؒ یہ کافی قدیم مزارات ہیں ۔ اب اس برٹ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت کی زبوں حالی کو دیکھ کر ترس آتا ہے اور دکھ بھی ہوتا ہے کبھی اس کلب کی کیا شان و شوکت تھی آج جگہ جگہ جھاڑیاں اُگی ہوئی ہیں باہر سڑک ٹوٹی ہوئی ہے جہاں پر گٹروں کا گندا پانی کھڑا ہے، رات کے وقت یہ ایک انتہائی خوفناک بھوت بنگلہ لگتی ہے، ایسے لگتا ہے جیسے ابھی عمارت سے کوئی بھوت آجائے گا۔ لاہور میں سب سے زیادہ اینگلو انڈین ریلوے میں کام کرتے تھے ہم نے لاہور میں بے شمار اینگلو انڈینز کو دیکھا ہے اور ان سے ملتے بھی رہے، اب تو نئی نسل کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اینگلو انڈین کسے کہتے ہیں خیر جناب برٹ انسٹیٹیوٹ کا ڈانسنگ فلور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا یہ لکڑی کا فلور جس میں تھوڑی سی لچک بھی تھی،انتہائی اعلیٰ اور قیمتی لکڑی کاہے۔ (جاری ہے)۔