تاریخ دو طرح کی شخصیات کا احسان کبھی نہیں بھولتی اور انہیں ہمیشہ اپنے اوراق میں زندہ و جاوید رکھتی ہے۔ ان میں ایک شخصیت کسی ملک یا نظام کے بانی(FOUNDER) اور دوسری اپنے وقت کے مصلح (REFORMER) کی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے قائداعظم بانی پاکستان اور قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو ایک مصلح کی حیثیت سے پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گے۔تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرتا ہے کیونکہ ایک وقت تک تو پیغمبروں سمیت تاریخ کی ہر ممتاز شخصیت ’’متنازع حیثیت کی حامل ‘‘ ہوتی ہے اور حکمران طبقے اپنے اپنے دور میں لا محدود اختیارات کی بناپر خود کو ’’بہترین‘‘ اور اپنے مخالفین کو ’’بدترین ‘‘ ثابت کرنے میں کوئی حربہ اور دقیقہ فراموش نہیں کرتے۔ لیکن بسا اوقات تاریخ کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ وقت کے حاکموں کو مجرم اور ان کے معتوبین کو ’’ہیرو‘‘قرار دے دیتی ہے۔ دراصل یہ فیصلہ عوام کرتے ہیں اور ’’زبانِ خلق کو نقارہ خداسمجھو‘‘کے مصداق عوام کی عدالت ہی تاریخ اور خدا کی عدالت ہوتی ہے۔ جس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے کیونکہ تاریخ کی عدالت کسی مخصوص وقت کی عدالت کے ’’نظریہ ضرورت (DOCTRINE OF NECESSITY کی بجائے نظریہء فطرت(DOCTRINE OF NATURE) کے تحت فیصلہ کرتی ہے۔ جس پر فطر ی اصولوں کے سِوا کسی اور طاقت کا اثر نہیں ہوتا۔ اس کے قانون سب کے لئے برابر اور حقیقی انصاف کے حامل ہوتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو ہر بڑی شخصیت کی طرح اپنی زندگی میں متنازع حیثیت کے حامل رہے۔ ان کے چاہنے والے انہیں قائدِ عوام قرار دیتے رہے جبکہ ان کے مخالفین انہیں فاشسٹ ، غدار اور قاتل کے الزامات سے نوازتے رہے ہیں جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور میں بھٹو کی کردار کشی میں سفاکانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا ۔ ان کے سیاسی کردار کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی زندگی ، یہاں تک کہ ان کے مسلمان ہونے کو بھی مشکوک بنا نے کی کوششیں کی گئیں انہیں ایک ’’قاتل‘‘ کی حیثیت سے ایک متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے تختہء دار پر لٹکادیا گیا۔ انہیں اور انکے خاندان کو طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں اور ایک طویل عرصے تک بھٹو کی تصویر اور ذکر کو بھی ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لیکن اس سب یکطرفہ پروپیگنڈا کے باوجود عوام کی اکثریت نے نہ تو وقت کی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کیا اور نہ ہی حکومتی پروپیگنڈےپر یقین کیا۔ بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا اور ہم نے دیکھا کہ ہماری تاریخ میں پہلی بار عوام نے اپنے بچوں کے نام بھٹو کے نام پر رکھّے اور جنرل ضیاء کی ہوائی حادثے میں موت کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں بھٹو دشمن اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر ٹیکنیکل دھاندلیوں کے باوجود پیپلز پارٹی کو کامیاب کرایا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا بھٹو کا سحر بڑھتا گیا اور اسکے مخالفین تاریخ کی دھند میں مجرموں کی حیثیت سے گم ہوتے چلےگئے۔آج یہ عالم ہے کہ بھٹو جمہوریت اور انسانی حقوق کا سمبل بن چکا ہے اور اسے تختہ دار پر لٹکانے والا ضیاء خود تاریخ کی سولی پر جھول گیا ہے ۔
حد تو یہ ہے کہ ضیاء کے ذریعے سیاسی میدان میں اترنے اوربرسوں تک اسکے نام کے گن گانے والے بھی آج ضیاء کا ذکر کرنا یا اس کا اپنے ساتھ تعلق جوڑنا گوارا نہیں کرتے....اور نہ ہی وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وہ زبان استعمال کرتے ہیں ،جو وہ کبھی ضیاء دوستی اور بھٹو دشمنی میں کیا کرتے تھے۔ کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو علامت ہے جمہوریت اور جمہوری جدوجہد کے لئے جان قربان کرنے والے بہادر انسان کی جس نے عوام کے حقوق کی خاطر تختہ دار کو چوم لیا لیکن ایک غاصب کے سامنے سر نہ جھکایا، اور ضیاء الحق علامت ہے ایک غاصب کی ایک ایسے مطلق العنان شخص کی جس نے اپنے ذاتی اقتدار کے لئے عوام کو کوڑے مارے، ان کے حقوق غصب کئے اور پاکستان کے ہر ادارے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔
آج ذوالفقار علی بھٹو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی نہیں، پاکستان کے ہر جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے داعی کے بھی لیڈر ہیں۔ کیونکہ عوام نے ان کے خلاف غدّاری اور قتل کے الزا مات کو تسلیم نہیں کیا اور تاریخ کی عدالت نے بھی انہیں ان الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ان کے کٹر مخالفین بھی ان کے مقدمہ ء قتل کو انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں اور میاں نواز شریف اور عمران خان انہیں عظیم قوم پرست لیڈ ر کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ کو نہیں ایک مقبول عوامی لیڈر اور مصلح(ریفارمر)کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اپنی تمام تر بشری خامیوں کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی قوم کے لئے جو تاریخی کارنامے سرانجام دئیے انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ ان میں 73ء کا متفقہ جمہوری آئین ، اسلامی سربراہی کانفرنس ، مسلم ممالک کی اکثریت پر مشتمل تیسری دنیا کے بلاک کی تشکیل ، چین اور اسلامی ممالک کیساتھ مخصوص تعلقات ، آزاد خارجہ پالیسی، 90ہزار جنگی قیدیوں اور پانچ ہزار مربع میل علاقے کی بھارت سے بازیابی اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا شامل ہیں۔مسڑ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ محنت کش طبقے کو زبان دینا اور ان کے حقوق کو اجاگر کرنا ہے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے بارے میں شاعروں ، ادیبوں ، تاریخ نویسوں اور دانشوروں نے جتنا کچھ لکھا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ہی پرانے فیصلے مسترد کرتے ہوئے تاریخ کی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے تو لازم ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قومی لیڈر کا درجہ دیا جائے۔