کراچی (نیوز ڈیسک) نیپال میں دنیا کے بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ نے چیلنج کے متلاشی اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کیلئے ہمہ وقت دنیا بھر کے کوہ پیمائوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کئی ماہر کوہ پیما اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ 2000ء میں اس بلند ترین پہاڑ کو ’’کچرے کا پہاڑ‘‘ قرار دیا گیا تھا اور اس حسین اور دلکش مقام کو یہ معلوم کرنے کا پیمانہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے کہ آخر انسان قدرتی مقامات کو کس حد تک گندا کر سکتا ہے۔ نیپالی حکام کا کہنا ہے کہ حالات خراب اور پہاڑ پر انسانوں کی پھیلائی ہوئی گندگی قابل برداشت حد سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ جس مقام کو دنیا کا سب سے بہترین اور پرکشش علاقہ ہونا چاہئے تھا وہ اب انسانی فضلے، گندگی اور کوڑے کرکٹ کی وجہ سے اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ اسے بلند ترین مقام پر قائم بیت الخلاء کہنا غلط نہ ہوگا۔ صورتحال اس قدر خراب بتائی جا رہی ہے کہ جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے، ماحول میں شدید بدبو پھیلتی جا رہی ہے۔ سب سے زیادہ بدبو پیشاب اور پاخانے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ ایک طرف کوہ پیمائوں کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف یہ لوگ صفائی کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ صورتحالی کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے حکومت کوہ پیمائوں کو پابند کر رہی ہے کہ وہ چوٹی سر کرنے کیلئے جاتے وقت مختص کردہ پوائنٹ سے کچرا جمع کرنے کا تھیلا حاصل کریں اور اسے چوٹی تک اپنے ساتھ رکھیں ، جیسے ہی واپس آئیں تو مختص کردہ پوائنٹ پر کچرے سے بھرا تھیلا واپس کریں۔ مائونٹ ایورسٹ کو دنیا کے بلند ترین پہاڑ کا رتبہ حاصل ہے اور اس کی بلندی 29؍ ہزار 32؍ فٹ ہے۔ یہ پہاڑ نیپال اور تبت کی سرحد پر قائم ہے۔ کوہ پیمائی کیلئے بہترین مہینے اپریل اور مئی ہیں جبکہ ستمبر کے بعد بھی دو ماہ تک کوہ پیمائی کی جاتی ہے۔ ہر سال تقریباً 500؍ کوہ پیما چوٹی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2023ء میں نیپالی حکومت نے کوہ پیمائی کیلئے 478؍ اجازت نامے جاری کیے تھے۔ رواں سال اپریل کیلئے جاری کردہ اجازت ناموں میں سے 44امریکا سے، 22 چین، 17 جاپان، 16 روس اور 13برطانیہ کے کوہ پیماؤں کیلئے ہیں۔