• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں خوف آتشِ گل سے ہے... یہ کہیں چمن نہ جلا دے...

جمہوریت کا مقدمہ، انسانیت کے قتل کا مقدمہ، نوجوانوں کی تباہی کا مقدمہ، دہشت گردی کا مقدمہ، معاشرے میں آئے روز نفرتوں کا مقدمہ، نوجوانوں کی بے راہ روی کا مقدمہ، اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے رجحان کا مقدمہ ،معاشرتی تباہی کا مقدمہ، پاکستان کو اس قدر مقدمات میں الجھا دیا گیا ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں کے درمیان اس طرح کے مقدمات الجھا دیئے گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ اس قدر بڑھتے ان مقدمات کی نہ تو کوئی عدالت ہے، نہ کوئی جج ہے، نہ ہی کوئی وکیل، مجرم اور مدعی۔خیال تھا کہ 12ویں قومی انتخابات کے بعد ملک نہ صرف جمہوری پٹری پر چڑھ دوڑے گا بلکہ بگڑا سیاسی نظام، بگڑی معاشی صورتحال اور گھٹن زدہ ماحول سے قوم کو چھٹکارا مل جائے گا۔ہمارے نزدیک، ہم نے کبھی بھی ماضی کے گھنائونے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ غلطیاں دہرانا ایک عادت سی بن گئی ہے اور نہ ماضی کو ساتھ لے کر چلے، نہ ماضی کی غلطیوں کو دھویا۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے مگر میرے نزدیک تاریخ نے ہمیںکہیں نہ کہیں دھوکہ بھی دیا ہے۔ جس طرح ماضی کی حکومتوں نے عوام کو ہمیشہ دھوکے میں رکھا۔ نہ آگے بڑھنے کے منصوبے بنے نہ ترقیاتی کام ہوئے۔بحرانوں کو جنم دینے والے سابقہ حکمرانوں نے کبھی قوم اور ملک کا نہیں سوچا۔ پاکستان اپنی 8ویں دہائی کی طرف رواں دواں ہے۔ 76برسوں میں بہت کچھ کرنے، بہت کچھ پانےاور بہت کچھ کھونے کے بعد پاکستان آج بھی نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ فقرہ ہمیں ایک سبق کی طرح پڑھا دیا گیا ہے کہ ہم خطرے میں رہنے والی قوم ہیں، موجودہ نئی حکومت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ پی ڈی ایم کا دوسرا شو ہے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں تو غرض یہ ہے کہ آج معاشرے میں جن نفرتوں کے بیج کو بویا جا رہا ہے اور اس کی صورت میں جو تباہ کن فصل اگ رہی ہے، اس کو کون ختم کرے گا۔ یہ ایک بہت گہری فکر ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے انڈسٹری کو تباہ کیا، زراعت جو ریڑھ کی ہڈی تھی اس کو توڑکے رکھ دیا۔ سابقہ حکومتوں کی ناقص پالیسیوں نے کبھی اچھے سسٹم نہ بنائے اور نہ چلنے دیئے۔یہ حقیقت ہے کہ جہاں ظلم ہوتا ہے وہاں مزاحمت بھی ہوتی ہے اور اسی طرح کی ملی جلی کیفیات سے ہم پچھلے کئی برسوں سے گزر رہے ہیں۔ خاص کر نفرت کی سیاست نے ہمارے اندر سے برداشت کا کلچر ختم کردیا ہے اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لے کر خود ہی انصاف کرنا شروع کردیا ہے۔ خاص کر کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے پھر سے ایک بڑا خوف طاری ہو گیا ہے، یہاں تو قانون بے بس نظر آ رہا ہے، گلی گلی چوریاں اور ڈکیتیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔ ان کے خلاف پکڑ دھکڑ تو نظر آتی ہے لیکن قانون پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا، لہٰذا کوشش کی جائے کہ نفرت کی اس پھیلتی آگ کو جلد از جلدبجھانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ آگ پھیلانے والی قوتوں کو کوئی اور بڑی طاقت میسر نہ ہو جائے اور میرے خیال میں جب تک ملک میں قانون کی حکمرانی اور سزا اور جزا کا عمل نظر نہیں آئے گا مجرموں کو کٹہرے میں لا کر سزائیں نہیں دی جاتیں اس وقت تک ہم بحرانوں کا شکار رہیں گے۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہماری عدالتوں پرسے ہمارے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے جو نہیں اٹھنا چاہیے تھا۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے برے سیاسی کلچر نے جس طرح عدالتی نظام کو داغدار کیا وہاں لوگوں کا عدلیہ پر عدم اعتماد ایک فطری عمل تھا۔ جو میں ضروری بات کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ اس ملک کی یوتھ کو کنٹرول نہیں کرتے اس کے مسائل حل نہیں کرتے، اس کو بنیادی حقوق کے راستوں پر نہیں لاتے ، تب تک اس ملک کا نوجوان دلبرداشتہ رہے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جس سے کم از کم نوجوان اپنے اندر تحفظ محسوس کرسکیں۔ہم کئی دہائیوں سے یوتھ کے بارے میں بڑے دعوے اور وعدے سنتےآئے ہیں اور یوتھ کے مستقبل کے بارے میں ہر حکومت بڑے دعوے کرتی ہے، تاہم ان دعوئوں پر ہم کبھی عمل پیرا نہیں ہو پائے۔ میرے نزدیک اب دعوئوں سے کام نہیں چلے گا۔ جس دن کوئی بھی حکومت یوتھ کو راہ راست پر لے آئے گی تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کی نہیں، پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ لیپ ٹاپ دینا نوجوانوںکے روزگار کے لئے ایک اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو اچھا روزگاربھی چاہیے، ان کو اچھی تعلیم چاہیے، ان کو اچھا مستقبل چاہیے، جو ہم انہیں نہیں دے پا رہے۔ آج کے زمانے میں ترقی اور کامیابی کا دارو مدار یوتھ کی صلاحیتوں پر ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں،آپ بنگلہ دیش کو دیکھیں کہ وہاں نوجوانوں نے کس طرح اپنے ملک کی خدمت کی اور کس طرح ہر شعبے میں کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ ان کی نسلیں بے راہ روی کی شکار نہیں ہوئیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو سنبھال کر رکھا۔ بس یہی ان ممالک کی کامیابی ہے۔ میں آخر میں حکومت وقت سے گزارش کروںگا کہ وہ اولین فرصت میں ایسی پالیسز مرتب کرےجن سے کم از کم یوتھ کا مستقبل سنور سکے۔نوجوانوں کا مستقبل سنورے گاتو پاکستان خود بخود نفرتوں کے تنائو سے نکل جائے گا۔

تازہ ترین