راقم اگر وزیر خزانہ کو ان کی قومی اسمبلی 2016-17 کے قومی بجٹ پر تقریباً دو گھنٹے بغیر رُکے اور پانی پیئے بغیر ارکان اسمبلی کی تالیوں کے درمیان بے تکان بولتے رہے تو وہ اس پر یقیناً داد کےمستحق ہیں۔ راقم 104سالہ گوشہ نشین انسان ہے۔ میں نہ وزیر خزانہ سے واقف اور نہ کبھی ان سے ملا ہوں۔ میں صرف ان کی اخباری تصویروں سے واقف ہوں۔ موصوف جس وقت 16-17کا قومی بجٹ پیش کر رہے تھےتو ان کو یا ان کی مستعد ٹیم کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی جانب سے 2014-15کا جو بجٹ پیش کیا گیا تھا۔ جس میں ریونیو کا ہدف 3104ارب رکھا گیا تھا۔ وہ سینٹ پرسنٹ حاصل کر لیا جائے گا، یہ ان کا حوصلہ اور آمدنی کے وسائل کو سمجھنے کا شعور تھا کہ انہوں نے 43کھرب 95ارب کے ہدف کا بجٹ پیش کر دیا۔ یعنی 15-16کےہدف سے 12کھرب 95ارب زائد کا بجٹ پیش کر دیا۔ قومی اسمبلی اور میڈیا میں اس کی خوبیوں اور کمزوریوں کو عوام کے نقطہ نظر سے خوب پرکھا جا چکا ہے اور شاید یہ سلسلہ ابھی جاری رہے۔ بہرحال 23جون کو قومی اسمبلی میں کثرت آراء سے یہ بل منظور ہو گیا۔ بعض آئٹم پر 27جون سے اور باقی پر یکم جولائی سے نفاذ ہو جائے گا۔
بجٹ کا اہم عوامی پہلو سرکاری وفاقی ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں اور پنشنوں میں دس فی صدی اضافہ ہے۔ بلکہ وزیر خزانہ نے دوسری مراعات کو شامل کر کے اس کو 13فی صدی بتایا ہے، صوبوں، مقامی کونسلوں اور بعض گنے چنے ملازمین کو بھی یہ ا ضافہ ملاہے اس طرح تقریباً ایک کروڑ پاکستانی اس سے فیض یاب ہوئے۔ مزید برآں ملازمین کے گریڈ میں بھی ردوبدل کیا گیا۔ 85سال یا اس سے زائد معمر پنشنروں میں 25فی صد اضافہ کیا گیا گو ان کی تعداد بمشکل ایک لاکھ ہو گی۔ ضعیف کمزور اور بے سہارا لوگوں کے لئے یہ بڑا تحفہ ہے۔ گو قومی بچت کی اسکیموں میں منافع کی شرحیں گھٹا دی گئیں۔ البتہ بچت کی مدوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ بجٹ کی منظوری کے سلسلے میں ایوان نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کی شق بھی منظوری کر لی۔ ایک سیاسی جماعت نے اس کی مخالفت کی تھی مگر آنے والے پیسے کو کون روک سکتا ہے، وزیراعظم کی آمد کے بعد یہ ’’مبارک‘‘ قدم اٹھایا جائے گا۔ 15-16کے بجٹ کی ریونیو ہدف کے لئے 30جون تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور یکم جولائی کو اکٹھی شدہ رقم کا اعلان ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو بھی مختتم عدد نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال یکم جولائی کو وزیر خزانہ نے 15-16کے بجٹ کی جمع شدہ رقم کو 3012 ارب بتایا یعنی ہدف سے 8ارب زائد۔ برسوں کے بعد سرپلس بجٹ کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، اور اس پر وزیر خزانہ اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، یقین ہے کہ اس کو اعداد و شمار کی جادوگری یا حسابی لیپا پوتی باور نہ کیا جائے گا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ اس خوش خبری کے ساتھ ہی پاکستان پر ڈالروں کی بارش ہونے لگی۔
(ا)۔آئی ایم ایف نے 500کروڑ ڈالر کی گیارہویں قسط ادا کر دی۔
(ب)۔عالمی بنک نے پاکستان کیلئے ایک ارب 2کروڑ ڈالر کی امداد دینا منظور کر لی یہ ماحول کی بہتری کے لئے ہے اور 500ڈالر ادا بھی کر دیئے۔
(ج)۔ ایک گروپ200ملین ڈالر مختلف منصوبوں میں لگائے گا۔
(د)۔نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کمپنی لمیٹڈ کیلئے 100ارب کا معاہدہ ہو گیا ہے 16بنک، نیشنل بینک آف پاکستان کی رہنمائی میں اس رقم کا بندوبست کریں گے۔
مندرجہ بالا معاہدوں سے بقول وزیر خزانہ پاکستان کے زرمبادلہ کےذخائر 23ارب ڈالر سے متجاوز ہو گئے جبکہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ ہے کہ سرمایہ کاری کی شرح اور ترسیلات زر کی رفتار سست اور برآمدات میں کمی ہے ، یہ اضافہ ترسیلاب زر کا نتیجہ نہیں ہے۔ بلکہ بیرونی ملکوں کے مالی اداروں کے قرضوں پر مبنی ہے۔
گزشتہ ہفتے کا ایک بین الاقوامی حادثہ برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی کا ہے۔ وزیر اعظم برطانیہ اس کے حق میں نہیں تھے مگر عوامی ریفرنڈم میں 52فی صدی افراد نے فیصلہ کیا اور وزیراعظم کو بھی سر جھکانا پڑا۔ اس کے نتائج فی الفور معلوم نہیں ہوں گے۔ لیکن کچھ عرصے بعد برطانیہ کو خسارے کی صورت میں دینا ہوں گے۔ پاکستان دولت مشترکہ یونین کا ممبر ہونے کی بنا پر بعض نقصانات کا شکار ہو سکتا ہے۔
حکومت کا ایک قابل قدر اقدام غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس کا نفاذ ہے یہ کوئی راز نہیں کہ پاکستان میں سب
سے نفع بخش کاروبار پلاٹس سے کوٹھیوں تک کی خرید و فروخت اور ہر قسم کی تعمیرات کا شعبہ ہے ۔ کہا جاتا ہے اس میں 3000ارب کا کالا دھن گردش کر رہا ہے۔ رجسٹری کے لئے پلاٹوں یا بلڈنگوں کو اتنی کم قیمت پر دکھایا جاتا ہے۔ جو باعث شرم ہے۔ چنانچہ حکومت نے اس لوٹ مار کو روکنے کیلئے قانون میں ترمیم کی اور آر ڈی نینس کی دفعہ 68میں ترمیم کر کے فروخت ہونے والی مالیت کا تخمینہ مروجہ بازاری نرخ سے کیا جائے گا۔ اوّل تو 7/5لاکھ کی بلڈنگ 35/30لاکھ کی نکلے گی۔ دوسرے یہ کہ ٹیکس گزشتہ 5سال کے اندر ہونے والے سودوں پر بھی لاگو ہو گا۔ چنانچہ کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے چیئرمین نے آرڈیننس کی دفعہ 68کی اس ترمیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دراصل حکومت کے ہر اچھے کام میں روہڑے ڈالنا عوام و خواص کا فرض ہے تاکہ اس کی آمدنی میں اضافہ نہ ہو سکے۔
محترم حسن نثار کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ علی سفیان آفاقی مرحوم میرٹھی نہیں پکے بھوپالی تھے ۔ان کے دادا کا رنگین محل شہر کے وسط میں آج بھی موجود ہے۔