قومی سیاسی رہنماؤں، اکابر دانشوروں اور قلمکاروں سے ایک جملہ اکثر سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے‘‘ اس سے یقیناً کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا، ہر فرد کو کسی کی رائے سے اختلاف کاپورا حق ہے لیکن رائے سے محض اختلاف ہی کافی نہیں بلکہ اس کیلئے دلائل بھی دیئے جانے چاہئیں یہی ایک جمہوری اور صحت مند معاشرے کی علامت ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ٹی وی ٹاک شو ہوں یااخباری کالم ،کسی کی رائے کی مخالفت میں دلائل پیش کرنے کے بجائے محض طعنے و تشنیع کی بوچھاڑ اور متعصبانہ رویّے کا اظہار کیا جاتا ہے جیسا کہ آج بعض متعصب رہنمائوں، تجزیہ نگاروں اور قلمکاروں کی جانب سے۔ مورخہ 27فروری 2014ء کو جنگ میں سینئر صحافی اور اینکر حامد میر کا کالم بعنوان ’’پاکستان بچانا ہے یا جمہوریت‘‘ پڑھا۔ جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ نفرت و تعصب کس کس شکل اور کس کس انداز میں سامنے آیا کرتا ہے۔اس مرتبہ انہوں نے ایم کیوایم اور قائد تحریک الطاف حسین کے بارے میں اپنی روایتی زہر افشانی کیلئے جناب الطاف حسین کے اس خصوصی انٹرویو کو بنیاد بنایا ہے جو انہوں نے مورخہ 25فروری 2014ء کو ایک ٹی وی کے اینکر کو دیا۔ اس انٹرویو میں جناب الطاف حسین نے ملک کو لاحق خطرات، دہشت گردی ،طالبانائزیشن اور اس کا پس منظر ،طالبان حکومت مذاکرات پر تفصیلی بات کی اور مسئلے کا حل بھی پیش کیا لیکن فاضل کالم نگار نے جناب الطاف حسین کے 50منٹ کے انٹرویو کے آدھے جملے کو بنیاد بنا کر ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین پر تنقید نہیں بلکہ زہر میں بجھے تیروں کی بارش کردی۔ ہم یہاں ریکارڈ کی درستی کیلئے یہ بات رقم کر رہے ہیں کہ جناب الطاف حسین نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’میں چیف آف آرمی اسٹاف اور نواز شریف صاحب سے کہوں گا کہ پلیز دونوں ایک پیچ پر آجائیں اور اگر منتخب حکومت فوج کے ساتھ دہشت گردوں سے نجات کیلئے ایک پیچ پر نہیں آتی تو پاکستان کی افواج سے کہوں گا کہ آگے بڑھے پھر اسٹیٹ کی طاقت کو ٹیک اوور کر لینا چاہئے اور پاکستان کو بچانا چاہئے، مجھے وطن عزیز ہے، وطن ہے تو حکومتیں ہیں ،وطن نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ،لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ وطن ختم ہو جائے اور جمہوریت رہے ،وطن ہوگا تو جمہوریت ہوگی‘‘۔ انہوں نے انتہائی دکھ اور کرب کے لہجے میں یہ بھی کہا تھا کہ ’’میں پاکستان کی خدمت کیلئے پیدا ہوا ہوں، میں پاکستان پر اپنی جان قربان کرنے کیلئے پیدا ہوا ہوں‘‘ مگر فاضل کالم نگار جیسوں کے دل نہیں پسیجے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مجھے آمریت پسند نہیں،میں فوج کو دعوت نہیں دے رہا، میں ملک کو بچانا چاہتا ہوں‘‘ لیکن ان کے ان جملوں کے بجائے بات کو سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا جارہا ہے اور ان کا وہ جملہ جو ’’اگر‘‘ سے شروع ہوا یعنی مشروط بات تھی اس کو لیکر ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے کہ الطاف حسین نے فوج کو ٹیک اوور کرنے کی دعوت دی ہے۔
کچھ ایسا وہ قائد تحریک کی نومبر 2004ء میں دہلی میں انٹرنیشنل کانفرنس میں کی جانے والی تقریر کے ساتھ کر رہے ہیں۔ فاضل کالم نگار الطاف بھائی کی تقریر کا یہ جملہ تو بار بار پیش کرتے ہیں کہ ’’برصغیر کی تقیسم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی‘‘ لیکن اس کے بعد اس کا جو اگلا حصہ ہے وہ ہمیشہ جان بوجھ کر گول کر جاتے ہیں جس میں قائد تحریک نے کہا تھا ’’اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے اور انڈیا اور پاکستان دو علیحدہ علیحدہ مملکتوں کی شکل میں دنیا کے نقشہ پر وجود میں آچکے ہیں تو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی آزادی ،خود مختاری اور ایک دوسرے کی جغرافیائی حدود کو تسلیم کرنا چاہئے، دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی سرحدوں کو تسلیم کرنا چاہئے، آپس میں اچھے پڑوسیوں کی طرح مل جل کر امن سے رہنا چاہئے اور آپس میں دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہئیں‘‘۔ پاکستان کا کونسا ایسا صدر، وزیر اعظم ، وزیر خارجہ یا قومی رہنما ہے جس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے یہ جملے ادا نہ کئے ہوں لیکن فاضل کالم نگار ہمیشہ آدھا سچ بیان کرتے ہیں جو پورے جھوٹ سے بھی زیادہ سنگین اور گمراہ کن ہوتا ہے اور بیجا نفرت وتعصب کی بنا پر ہمیشہ جناب الطاف حسین کو پاکستان دشمن ثابت کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اسی طرح کا متعصبانہ طرز عمل لوگوں کو باغی بناتا ہے۔ دراصل متعصبانہ اور شائونسٹ ذہنیت نے محب وطن بنگالیوں کو بھی غداری کے سرٹیفیکٹ دے کر انہیں دیوار سے لگایا اور ان میں بغاوت کے بیج بوئے جس کا نتیجہ 1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا مگر افسوس کہ فاضل کالم نگار اور ان جیسے لوگوں نے سانحہ مشرقی پاکستان سے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ آج بھی غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹ رہے ہیں۔ یقیناً ایسے لوگوں کو وطن کی قدر نہیں ہو سکتی۔ وطن کی قدر انہی کو ہوتی ہے جنہوں نے وطن کے حصول کیلئے جدوجہد کی ہو، قربانیاں دی ہوں جنہوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کئے ہوں مگر جنہوں نے صبح اٹھ کر ریڈیو پر پاکستان کی آزادی کا محض اعلان سنا ہو انہیں پاکستان کی قدر کیسے ہو سکتی ہے۔ محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی کمائی اور سڑک پر چلتے ہوئے ملنے والے پیسوں کی قدر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
فاضل کالم نگار نے خود کو جمہوریت پسند ظاہر کرنے کے لئے فوجی آمروں پر تبریٰ بھیجتے ہوئے صرف جنرل ایوب خان ، جنر ل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کا ذکر کیا ہے لیکن جنرل ضیاء الحق کانام تک نہیں لیا۔ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق جس نے1977ء میں اس وقت کی پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور پیپلز پارٹی کے بانی اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی پورے ملک خصوصاً سندھ میں ظلم کے پہاڑ توڑے۔ یہ پاکستان کا ایسا بدترین اورسیاہ ترین دور تھا کہ جس میں پاکستانی جسم پر جو گھائو لگے ان سے آج تک خون رس رہا ہے۔ کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کی لعنت اسی دور کا تحفہ ہیں۔ پاکستان میں شیعہ سنی فسادات بھی اسی مارشل لا کی پیداوار ہیں۔متعصب اور شائونسٹ عناصر جنرل پرویز مشرف پر اٹھتے بیٹھتے تبریٰ بھیجتے ہیں اور ان پر پاکستان کو امریکہ کی جنگ میں جھونکنے کا الزام لگاتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق ہی تھا کہ جس کے دور میں پاکستان کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ میں دھکیلا گیا اور جنگ کیلئے جہادی تنظیمیں تشکیل دی گئیں ، مدرسے اور ٹریننگ کیمپ قائم کئے گئے جہاں سادہ لوح نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے اور انہیں جہاد کے نام پر افغانستان بھیجا گیا اور ہزاروں نوجوانوں کو جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ پاکستان کو سی آئی اے کے گھر کا آنگن بنا دیا گیا۔ افریقہ اور ایشیاء کے مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو اس جنگ کا حصہ بنانے کیلئے لایا گیا اور اسلام کے نام پر جنگ میں جھونکا گیا ۔ان ’’خدمات‘‘ کے عوض امریکہ سے بوریاں بھر بھر کے ڈالروں کے عوض پاکستان کی آزادی ،خود مختاری ، عزت اور حرمت کا سودا کیا گیا۔ ایم کیوایم اور الطاف حسین نے اس وقت بھی اس نام نہاد جہاد کی مخالفت کی اور اس کے بعد بھی طالبائزیشن کے خلاف کھل کر آواز بلند کی۔ خواہ وہ بے نظیر کا دور ہو یا میاں نواز شریف کا، جنرل پرویز مشرف کا یا صدر زرداری کا ۔ ایم کیوایم ہی وہ واحد جماعت اور الطاف حسین ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو اس فتنہ کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے بلکہ قوم کو اس خطر ے سے مسلسل آگاہ کرتے رہے جبکہ فاضل کالم نگار اور ان جیسے لوگ نہ صرف طالبان اور طالبائزیشن کی حمایت میں صفحے کے صفحے کالے کرتے رہے بلکہ ایم کیوایم اور الطاف حسین کو معطون اور قوم کو گمراہ کرتے رہے۔ ملّا عمر ہو یا اسامہ بن لادن ہو ان تک ایم کیوایم اور الطاف حسین کی پہنچ تو نہ تھی البتہ ان شخصیات تک پہاڑوں ،غاروں اور تمام خفیہ مقامات پر فاضل کالم نگار کی رسائی ضرور تھی اور یہ تعلق خاص کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ فاضل کالم نگار نے جنرل پرویز مشرف کو اپنی عصبیت کانشانہ بناتے ہوئے طالبان کے قیام کی تہمت بھی انہی کے سر پر ڈال دی جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ طالبان بے نظیر کے دوسرے دور حکومت (1993-96 ء)میں وجود میں آئے۔ اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ’’طالبان میرے بچے ہیں‘‘ یقیناً اس وقت بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کا شوق دراندازی زوروں پر تھا ہم نے مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ کو مسلح کرکے افغانستان بھیجا جو افغان شہروں کو تاراج کرتے ہوئے افغان دارالحکومت کابل تک پہنچے اور 1996ء میں برہان الدین ربانی کی حکومت کاخاتمہ کر کے وہاں قبضہ کر لیا۔ یوں ضیاء دور میں بویا ہوا بیج 1996ء میں ایسا تناور درخت بن گیا اور اس کی منحوس جڑیں آج کابل سے کراچی تک پھیل گئی ہیں اور جن کا زہریلا پھل آج پوری پاکستانی قوم کھانے پر مجبور ہے ۔ ضیاء دور میں پیدا کیا جانے والا مرض آج کینسر بن کر پاکستان کے پورے بدن میں پھیل چکا ہے اور قوم تل تل مر رہی ہے مگر کچھ لوگوں کے دلوں پر مہریں اور سماعت و بصارت پر آج بھی تالے پڑے ہیں مگر نفرت،تعصب اور شائونزم ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا بلکہ کسی زہریلے چشمے کی طرح مسلسل رواں ہے۔
فاضل کالم نگار نے اپنے مذکورہ کالم میں ایم کیوایم اور قائد تحریک کو فوج کے حبیب اور ایک آمریت پسند سوچ رکھنے والا رہنما قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیوایم اپنے روز اول سے ہی فوج، اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کے زیرعتاب رہی۔ قائد تحریک نے جنرل ضیاء دور آمریت میں تین مرتبہ قیدوبند کی صعوبتیں اور سزائیں بھگتیں مگر دوسروں کی طرح معافی مانگ نہیں بلکہ اپنی سزا پوری کر کے باہر آئے۔ (جاری ہے)