یہ حقیقت ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور بہت سے ممالک ، کمپنیاں اور تجارتی ادارے ان مواقع سے فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں مگر سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے وہ ادھر کا رخ کرنے میں متامل ہیں۔ سرکاری سطح پر ان کی پذیرائی میں بھی ناقص پالیسیاں حائل ہیں۔ مگر ملک کی اقتصادی صورت حال اب اتنی گمبھیر ہو چکی ہے کہ اس حوالے سے فوری اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ موجودہ مخلوط حکومت نے اس پس منظر میں معاشی ایجنڈے کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور اس سمت میں تیزی سے قدم بڑھانے شروع کئے ہیں۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ایک وفد کے ہمراہ واشنگٹن میں ہیں جہاں وہ امریکی حکام کے علاوہ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے گفت و شنید کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی گزشتہ ہفتے سعودی عرب گئے تھے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے دو طرفہ تجارتی تعاون پر گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو کے تسلسل میں اب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کی سربراہی میں وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔سعودی ولی عہد نے پاکستان میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا تھا مگر اب معلوم ہوا ہے کہ سعودی عرب اگلے پانچ سال کے دوران پاکستان میں پچیس ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور سعودی وفد مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری پر عملدرآمد کیلئے حکام سے مشاورتی بات چیت میں مصروف ہے۔ سعودی عرب کی حکومت جن شعبوں میں سرمایہ لگانے کی خواہشمند ہے ان میں زراعت، تجارت، توانائی، آئی ٹی، معدنیات، ٹرانسپورٹ، دفاع، ماحولیات اور صنعتیں وغیرہ شامل ہیں۔ سعودی عرب ریکوڈک میں سونے اور تانبے کی تلاش کے منصوبے میں بھی شراکت داری کیلئے تیار ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ سعودی وفد صدر آصف زرداری ، وزیراعظم شہباز شریف اور متعلقہ محکموں کے وزراء اور اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کر کے سرمایہ کاری کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کرے گا۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کوششوں کا حصہ ہے جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب اس وقت خلیجی خطے کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے جس کی جی ڈی پی 2022 میں گیارہ ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ سعودی وفد کی پاکستان آمد اور حکومتی شخصیات سے مذاکرات کے نتیجے میں سرمایہ کاری کیلئے لوگوں میں اعتماد بڑھے گا اور کئی معاہدوں کے خدوخال واضح ہونگے جن پر دستخط سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مئی میں دورہ پاکستان کے دوران کئے جائینگے۔ معاہدوں کے تحت سعودی عرب پاکستان میں کئی اقتصادی منصوبوں کا حصہ بن جائیگا جس سے ملک میں تعمیر و ترقی کا نیا ماحول پیدا ہو گا اور روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ ملک اس وقت جس معاشی کساد بازاری سے گزر رہا ہے اس کے نتیجے میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک ایسا سلسلہ ہےجو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ وفاقی وزیر اقتصادی منصوبہ بندی کے مطابق حکومت کی آمدن سات ہزار ارب روپے ہے جبکہ آٹھ ہزار ارب روپے کے قرضے ادا کرنے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وسائل کا بڑا حصہ کرپشن اور سمگلنگ کی نذرہو رہا ہے صرف پٹرول کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالانہ دو ارب ڈالر نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں پاکستان سعودی عرب اور دوسرے دوست ملکوں اور ذرائع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک معاشی ترقی کی راہ پر چل نکلے گا۔ روزگار میں اضافہ ہو گا ، مہنگائی میں کمی ہو گی اور غربت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو مکمل یکسوئی کے ساتھ اس معاملے میں اپنا کردار نبھانا پڑے گا۔ چین پہلے ہی اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کی سکیورٹی پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔