• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت کے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں نئے اضافے کے فیصلے کے پس پشت جو بھی عوامل کارفرما ہوں، اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ اس سے پریشان حال عوام کو بعض امور میں ریلیف دینے کی راہ میں مشکلات آسکتی ہیں۔ ایسے عالم میں، کہ پسے ہوئے طبقے کے لوگ روٹی، سبزی، دالوں سمیت ضروری اشیا کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، یہ خبر کسی بم سے کم نہیں کہ پیٹرول کی قیمت 4روپے 53پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 8روپے 14پیسے فی لیٹر بڑھا دی گئی۔ وزارت خزانہ کے اعلامیہ کے مطابق 16اپریل سے شروع ہونے والے پندرھواڑے کے لیے پیٹرول کی نئی قیمت 293روپے 94پیسے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 290روپے 38پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت 6روپے69پیسے کے اضافے کے ساتھ 193روپے 8پیسے، لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 6روپے 54پیسے اضافہ کے ساتھ 174روپے 34پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان ،جو اپنی ضرورت کا 85فیصد تیل درآمد کرتا ہے، توازن ادائیگی کے بحران اورپریشان کن افراط زرکی کیفیت سے دوچار ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی سے خوراک سمیت زندگی کی تمام ضروریات مہنگی ہوتی اور نقل وحمل کے ذرائع متاثر ہوتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کے مہنگے بل سے بچنے کے لئے بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع اختیار کئے جائیں، شمسی ودیگر ذرائع توانائی پر انحصار بڑھا یا جائے،تیل اور گیس ذخائر کی تلاش میں مزید فعالیت کا مظاہرہ کیا جائے اور تھر کوئلے کی گیس بروئے کار لائی جائے۔بڑے ڈیموں کی اگرچہ خاص اہمیت ہے تاہم مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے کم ڈیموں کی تیاری مرحلہ وار جاری رکھ کربھی کئی اچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

تازہ ترین