ورلڈ بینک کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز میں جاری کردہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 24-2023ء کے مطابق پاکستان انسانی ترقی یا اپنی آبادی پر سرمایہ کاری کے حوالے سے نہ صرف جنوبی ایشیا میں سب سے نچلے درجے پر آ چکا ہے بلکہ اس درجہ بندی میں ہمارا مقام بعض افریقی ممالک سے بھی نچلی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ واضح رہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بنیادی طور وہ پیمانہ ہے جو مختلف ممالک میں ترقی کی سطح کی پیمائش اور موازنہ کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ عالمی درجہ بندی کا یہ طریقہ کار اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے 1990ء میں متعارف کروایا تھا۔ یہ درجہ بندی کسی بھی ملک کی تین بنیادی جہتوں میں ترقی کو مدنظر رکھ کر تیار کی جاتی ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں۔ اس کا مقصد حکومتوں کو پالیسی سازیکیلئے رہنمائی فراہم کرنا اور ان شعبوں کی نشاندہی ہے جہاں شہریوں کی فلاح و بہبود اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانےکیلئے کام کرنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ہر حکومت قیام سے لے کر اختتام تک یا تو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کیلئے مصروف عمل رہتی ہے یا اسے امور مملکت چلانےکیلئے درکار وسائل کی انتظام کاری کا چیلنج درپیش رہتا ہے۔ یوں ہر حکومت آنے والی نئی حکومت کے لئے پہلے سے بھی زیادہ بڑے مسائل اور مالی بحران چھوڑ کر جاتی ہے اور یہ چکر گزشتہ 76 برس سے جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا شمار اب ترقی پذیر ممالک کی بجائے ایک غریب ملک کے طور پر کیا جانے لگا ہے جو اپنے روزمرہ مالی امور کو چلانے کے لئے عالمی اداروں اور دوست ممالک کا دست نگر بن چکا ہے۔ سالہا سال سے جاری پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں سے ایک کے بعد ایک مالیاتی پیکیج یا قرض لینے پر مجبور ہیں اور قرض در قرض کا یہ جال ملک میں مزید غربت پھیلانے اور مہنگائی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ریزیڈنٹ نمائندے سیموئیل رزک کا یہ بیان ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہونا چاہیے کہ پاکستان 164 کی کم انسانی ترقی کی درجہ بندی کے ساتھ دنیا کا سب سے غریب آمدنی والا ملک بن گیا ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس 24-2023ء کے مطابق ہیٹی اور زمبابوے جیسے ممالک نے بھی گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ایک طرف ہمارا ملک گزشتہ دو سال سے مسلسل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور دوسری طرف ہم دور رس معاشی اصلاحات کرنے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے قرض پر قرض لے کر کاروبار حکومت چلانے کی خطرناک پالیسی پر کاربند ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے تحت صوبائی حصص کی ادائیگی کے بعد وفاقی حکومت کے پاس اتنی رقم بھی بقایا نہیں بچتی ہے کہ وہ لئے گئے قرضوں کی مد میں واجب الا دا سود کی ادائیگی یقینی بنا سکے۔ یہ طرز حکومت ملک میں انسانی ترقی کے لئے وسائل کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اگر ہم گزشتہ دو سال کی اقتصادی پالیسیوں کا جائزہ لیں تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ معاشی حالات کی خرابی کا خمیازہ غریب عوام نے برداشت کیا ہے اور اس وقت بھی ان پر مزید معاشی بوجھ لادنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی اور مہنگائی میں اضافے کے باعث ایک کروڑ سے زائد آبادی کے سروں پر غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس حوالے سے مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تخمینوں کے مطابق پاکستان مستقبل قریب میں 5 سے 6 فیصد کی اقتصادی شرح نمو حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس طرح ملک میں انسانی ترقی کی شرح مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے ہمسایہ ممالک مسلسل بہتر معاشی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس سے پاکستان ان سے معاشی دوڑ میں مزید پیچھے چلا گیا ہے۔
پاکستان کو اس وقت جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس انسانی سرمائے کی ترقی کے لئے متعلقہ شعبوں میں خرچ کرنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں۔ پاکستان کو انسانی ترقی کے بڑھتے ہوئے بحران کا سامنا ہے، حالیہ برسوں میں خواندگی، تعلیم، صحت، غربت اور انسانی بہبود کے دیگر پہلوؤں کے زیادہ تر اشارئیے ابتر ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی قیادت اور مقتدر طبقوں میں ان مسائل پر کوئی فکرمندی نظر نہیں آ رہی ہے۔ علاوہ ازیں دو ماہ قبل ہونے والے عام انتخابات میں بھی یہ مسائل کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کے ایجنڈے پر سرفہرست نہیں تھے اور نہ ہی عوام نے قومی سطح پر ان بنیادی مسائل کو کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کو ووٹ دینے کے لئے پیمانہ بنایا۔
ایک طرح سے ہم نے بحیثیت مجموعی اپنے مستقبل سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور ہماری تمام تر توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ضائع ہو رہی ہے۔ یہ صورتحال اس لحاظ سے مزید افسوسناک ہے کہ چند عشرے قبل پاکستان نے دنیا کا وہ پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا جس نے پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی تھی لیکن اب یہ حالات ہیں کہ ہمارے لئے پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول ہی ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ حالات ہر ذی فہم کے لیے سوچنے کا مقام ہیں کہ کیا ہم نے اندھیروں کا یہ سفر اسی طرح جاری رکھنا ہے یا اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اور قوم کی بہتری کے لئے مل جل کر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)