میر صحافت میر خلیل الرحمٰن کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ اپنے وقت کے عظیم اہل علم و دانش کو جنگ کے قبیلے میں جمع کرتے رہے۔ ان میں رئیس امروہوی اور سید محمد تقی جیسے درجنوں نامور ادیب، شاعر، صحافی اور کالم نگار بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر آج عالم ہست و بود سے دور لیکن اپنے پڑھنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
اتوار کی رات دنیا سے کوچ کر جانے والے نرم خو، نرم دل، خوش اخلاق، خوش پوشاک اور خوش اطوار ممتاز صحافی سید حیدر تقی کا تعلق بھی اسی علمی و ادبی خانوادے سے تھا۔ وہ جنگ کے ایڈیٹر سید محمد تقی مرحوم کے فرزند ارجمند اور رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے قابل فخر بھتیجے تھے۔ حیدر تقی جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے انگلیاں کانپتی ہیں۔ ادارتی صفحے کے انچارج تھے جس پر اہم قومی و بین الاقوامی موضوعات پر اداریے، ادارتی نوٹس اور سیاسی و سماجی کالم چھپتے ہیں اور اہل دانش اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق علم و ہنر اور آگہی کے موتی بکھیرتے ہیں۔ سید حیدر تقی انہی اداریوں، کالموں سے اس صفحے کو مزین کرنے کے ذمہ دار تھے۔
جنگ کوئٹہ میں تقریباً اکیس سال بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر فرائض کی انجام دہی کے دوران دہشت گردانہ حملے اور اس کے چند ہی ماہ بعد اپنے بیٹے پر تخریب کاروں کی یلغار اور گاڑی چھیننے کے واقعے کی وجہ سے میں نے محمود شام صاحب سے، جو اس وقت جنگ کے گروپ ایڈیٹر تھے، درخواست کی کہ مجھے اب کوئٹہ میں نہیں رہنا۔ میرا تبادلہ راولپنڈی کر دیا جائے۔ شام صاحب نے میرے لئے ایڈیٹر ایڈیٹوریل کا عہدہ تخلیق کیا اور جنگ راولپنڈی میں تعینات کر دیا۔ یہی وقت تھا جب میرا تعلق حیدر تقی سے قائم ہوا۔ میری ذمہ داری میں لکھنے کے علاوہ اداریہ نویسوں کا ڈیوٹی شیڈول ترتیب دینا بھی تھا جس پر حیدر تقی عملدرآمد کراتے، وہ خود بھی ادارتی نوٹ لکھتے مگر بعد میں کام کا بوجھ زیادہ ہونے کی وجہ سے صفحے کی نگرانی تک محدود ہوگئے۔
اپنے فرائض کے معاملات میں جنگ کے ایڈیٹر سہیل وڑائچ سے ان کا زیادہ رابطہ رہتا مگر دن میں ایک دو بار مجھ سے بھی بات ہو جاتی۔ لکھنے والے زیادہ تر حساس طبائع کے حامل ہوتے ہیں جنہیں قائل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر حیدر تقی اس فن میں طاق تھے جس کو بھی جو کام سونپتے خوش دلی سے آمادہ ہو جاتا۔
کراچی میں سید شاہد بخاری، ثروت جمال اصمعی، عاتکہ ملک، راولپنڈی میں میرے علاوہ سید نیئر رضوی، عباس عالم اور لاہور میں طارق حمید اور مجتبیٰ نقوی سے ان کا مسلسل رابطہ رہتا۔ یہ دراصل حیدر تقی کی علمی و عملی تربیت کا کمال تھاکہ سب رفقائے کار سے ان کے مراسم انتہائی دوستانہ تھے۔ ان کی گفتگو میں ملائمت اور اپنائیت کی خوبیاں تھیں جو سب کو ان کا گرویدہ بنائے رکھتیں۔ وہ کالم نگاروں کی تحریریں وصول کرتے، انہیں پڑھتے اور سہیل وڑائچ صاحب سے ہدایات لیتے۔ لاہور میں یہ ذمہ داری طارق حمید کی تھی جن سے ان کا رابطہ رہتا۔ اداریوں کو پڑھنا میرا کام تھا مگر وہ بھی ایک نظر ضرور ڈال لیتے۔ میں ازراہ تفنن ان سے کہتا تمام چیزیں ٹھیک ہیں۔ پھر بھی کوئی غلطی رہ گئی تو وہ آپ کی ذمہ داری، وہ ہنستے ہوئے کہتے ’’جی بالکل بجا فرمایا پکڑا میں ہی جائوں گا‘‘۔ ان کی ہلکی پھلکی گفتگو سے کام کی ساری تکان اتر جاتی۔ گفتگو کے دوران موقع محل کی مناسبت سے وہ اکثر اپنے چچا جون ایلیا کے چھوٹی بحر والے اشعار سناتے جو انہیں ازبر تھے۔
ادارے سے ان کی وفاداری اور فرض شناسی سب کے لئے رول ماڈل تھی۔ ستر کے پیٹے میں تھے مگر کام کے دوران نوجوانوں کی طرح بھاگ دوڑ میں لگے رہتے۔ عیدکے بعد پتہ چلا کہ وہ دفتر نہیں آئے۔ بیمار ہوگئے ہیں میں اسے معمول کی بات سمجھا مگر اتوار کی رات عاتکہ ملک نے اطلاع دی کہ سب کو ہنسانے، منانے اور جگانے والا خود لمبی نیند سو گیا ہے تو دل دھک سے رہ گیا۔ ان کی عمر ابھی جانے کی نہیں لگتی تھی۔ مگر اللہ کا نظام اپنا ہے کب کس کا آخری وقت آ جائے یہ راز تو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سب ان کی رحلت سے شدید صدمے میں ہیں مگر’’ سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے۔ ‘‘خداوند کریم و رحیم انہیں غریق رحمت اور ان کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)