• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس دنیا میںانسان اپنے اعمال کا جواب دہ ہوتا ہے، قانون کو، معاشرے کو یا ضمیر کو۔ ذاتی زندگی میں ہمیں اپنے فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اپنے تجربات کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔

اس حوالے سے عظیم فلمی اداکار مارلن برانڈو اپنی خود نوشت سوانح حیات (سانگز مائی مدر ٹاٹ می) میں ایک انتہائی دلچسپ نکتہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ لوگ اپنے گھر کا آرام چھوڑ کر، پیسے خرچ کر، بہت سے اجنبی لوگوں کے درمیان سینما ہال میں بیٹھ کر فلم کیوں دیکھنے جاتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ خود کو کرداروں کے ساتھ آئیڈینٹی فائی کرتے ہیں، اپنے ہم زاد تلاش کرتے ہیں، کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں (اسی لیے سینما گھروں میں اندھیرا ہوتا ہے، تاکہ اور کسی کی موجودی کا احساس نہ ہو، آپ اور کردار اکیلے رہ جائیں)، اور پھر ناظرین یوں محسوس کرتے ہیں کہ وہ خود عمل کر رہے ہیں جس کے نتائج انہیں بھگتنے نہیں پڑتے، وہ فیصلے کر رہے ہیں جن کے عواقب سے وہ محفوظ ہیں، تجربات کر رہے ہیں اور کوئی قانونی، معاشرتی اور جذباتی قیمت ادا نہیں کر رہے۔ دکھ بھی ہے تو تین گھنٹے ، خوشی بھی ہے تو تین گھنٹے ، قتل کی سزا تین گھنٹے، اپنے پیاروں کی موت کا غم تین گھنٹے، اور سینما گھر سے نکلتے ہوئے وہی فیضؔ صاحب والا معاملہ کہ ــ’’لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں۔ ‘‘

زندگی کا آئین مختلف ہے، زندگی خون بہا مانگتی ہے، فیصلوں کا خراج طلب کرتی ہے، دو راہے پر اگر غلط رستے کا انتخاب ہو جائے تو زندگی بھر اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے، اور اگر آپ حکم ران ہیں تو آپ کے اچھے برے فیصلوں کے اثرات نسلیں بھگتتی ہیں۔ پاکستان میں مضبوط مرکز ہونا چاہیے، قومی زبان اردو ہو گی، اس خطے کی تاریخ کو فقط مسلم عینک سے دیکھا جائے گا، مقامی ثقافت کی حوصلہ شکنی کی جائے گی، جمہوریت مسلمانوں کے لیے غیر موزوں نظام ہے، ہندوستان ہمارا ازلی ابدی دشمن ہے ، مذہب کی تنگ نظر تشریحات، یہ سب ہمارے حکم رانوں کے کئے ہوئے فیصلے ہیں جن کے ’ثمرات‘ ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔پاکستان کوئی فلم تو نہیں تھی کہ ہم تین گھنٹے بعد سینما گھر سے ’ڈبا، ڈبا‘ کے نعرے لگاتے برآمد ہوتے اور اپنے کام کاج میںلگ جاتے۔ کروڑوں آفت زدہ شہری، دہائیوں سے ان فیصلوں کا خراج ادا کر رہے ہیں، بہ قول افتخار عارف ’’ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال... جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں۔‘‘

محمد علی جناح سے آج تک، ہمارے حکم رانوںکے متعدد فیصلوں نے خود ان کو اور اس ملک کے رہنے والوں کو کس طرح متاثر کیا ہے یہ ایک طویل بحث ہے، اگر ہم خود کو اپنی سیاست کے موجودہ کرداروں تک محدود رکھیں تو شاید کچھ بات سمٹ سکے۔اس نسبت سے عمران خان ایک انتہائی دلچسپ مثال ہیں۔ ابھی کچھ ماہ پہلے تک عمران خان کی زندگی اور سیاست بالکل فلمی انداز میں چلتی رہی، یعنی نہ تو ان کو اپنے اعمال کے نتائج بھگتنا پڑتے تھے، نہ اپنے غلط فیصلوں کی قیمت چکانا پڑتی تھی، نجی زندگی کی کوتاہیاں تو چھوڑیے، انہیں قانون شکنی پر بھی کسی سزا کا کوئی خوف نہیں تھا، حتیٰ کہ وہ آئین شکنی تک جا پہنچے، صبح شام دریدہ دہنی کے مظاہرے کرتے اور رات کو سکون سے بنی گالا میں آرام فرماتے۔ یوں لگتا تھا جیسے ’حقیقت‘ کو عمران خان کیلئےمعطل کر دیا گیا ہے۔ بہرحال، عمران خان طویل ’جدوجہد‘ کے بعد اڈیالہ جیل پہنچے ہیں۔ ہیلتھ کارڈ جاری کرنے سے عثمان بزدار کی تعیناتی تک، ان کے فیصلوں کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوئے یہ فیصلہ عوام خود کریں۔ کیا فیض حمید کی تعیناتی کے حوالے سے ان کو ادارے سے بھڑنا چاہئے تھا، کیا انہیں اپنی حکومتیں توڑنا چاہیے تھیں، کیا انہیں نو مئی کیلئے نفسیاتی فضا تیار کرنا چاہیے تھی، خدا جانے آج عمران خان اپنے ان فیصلوں کے حوالے سے کیا سوچتے ہوں گے؟ مارلن برانڈو ایک جگہ لکھتے ہیں کہ سپر سٹار کلارک گیبل ہر فلم میں کلارک گیبل کا کردار ہی ادا کیا کرتے تھے، یعنی سپر سٹار کی پرسنیلیٹی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ اسے میتھڈ ایکٹنگ کا طریق اختیار کرنا اور کہا نی کے کردار میں ڈھلنا اپنے مقام سے نیچے آنے کے مترادف لگتا ہے۔ عمران خان کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، وہ وزیرِ اعظم ہوں یا قیدی نمبر 804، وہ عمران خان ہی رہتے ہیں، اسی سنگھاسن پر براجمان رہتے ہیں، وہی جارحانہ زبان ، وہی جنگ جویانہ رویہ، یعنی معاملات کو سلجھانے کیلئے جس بنیادی لچک کی ضرورت ہوتی ہے وہ عمران خان کی شخصیت کا فطری حصہ نہیں ہے۔

اب اور کس موجودہ قومی سیاست دان کے فیصلوں اور ان کے مضمرات کا جائزہ لیا جائے؟ اگر ’موجودہ‘ کی کڑی شرط نہ ہوتی تو میاں نواز شریف پر بھی یقیناً بات کی جاتی، لیکن میاں صاحب کا اسٹیٹس فی الحال معلق ہے ’’یعنی ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘ والی کیفیت ہے، اگر میاں صاحب نے چین کی سیاحت کے بعد اپنی نیم ریٹائرمنٹ سے واپسی کا فیصلہ کیا تو پھر ہم بھی اس موضوع کی طرف لوٹیں گے۔ ہماری تو خواہش تھی کہ سیاست دانوں کی اس فہرست میں شہباز شریف صاحب کو بھی شامل کیا جائے اور ان کے کچھ فیصلوں کے ثمرات و مضمرات پر بھی گفتگو کی جائے لیکن بات لمبی ہونے کا اندیشہ ہے، کیوں کہ پہلے ہمیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ شہباز صاحب ’سیاست دان‘ ہیں اور پھر یہ تصدیق کرنا ہو گی کہ ان کے فیصلے انہی کے فیصلے ہیں۔ بہتر ہے کہ بات مارلن برانڈو کے ا یک قول پر ختم کر دی جائے (جس کا شہباز صاحب سے کوئی تعلق نہیں)

Never confuse the size of your paycheck with the size of your talent.

تازہ ترین