کچھ معاشروں میں آج بھی گریہ و زاری اور بین کرنا ایک پیشے کا درجہ رکھتا ہے۔ راجستھان کے کچھ علاقوں میں ایک خاص ذات کی عورتوں کو سوگ کے موقع پر بین کرنے اور رونے دھونے کیلئےبلایا جاتا ہے۔ اس پیشے سے وابستہ خواتین کو’’رودالی‘‘کہا جاتا ہے۔ ہر قبیلے کی اپنی رودالیاں ہوتی ہیں اور وہ اپنے مخالف قبیلے کے بارے میں جھوٹ بولنے کی باقاعدہ تربیت لیتی ہیں اور گریہ وزاری کے دوران مخالف قبیلے کے اہم افراد کے آباؤاجداد کے بارے میں من گھڑت کہانیاں بین اور چیخ وپکار کی صورت میں بیان کرتی ہیں۔ زیادہ جھوٹ بولنے والی رودالیوں کی مانگ بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے اور انہیں معاوضہ بھی اچھا ملتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ایک سیاسی قبیلے کی حیثیت سے گزشتہ پچپن سال سے نسل در نسل اپنی ہر کامیابی اور خوشی کے موقع پر اپنی مخالف رودالیوں کے بین اور رونے دھونے سُنتی چلی آرہی ہے۔ جب بھی پیپلزپارٹی نے ملک کیلئے کوئی قابل فخر کام کیاتو یہ بھٹو مخالف رودالیاں اپنے بال نوچتیں، سینہ پیٹتیں سامنے آ جاتی ہیں اور یہ موقف اختیار کرتی ہیں کہ بھٹو شہید کی جماعت نے کوئی کارنامہ نہیں کیا بلکہ ملک اور جمہوریت کا نقصان کر دیا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں آصفہ بھٹو زرداری کی جانب سے اپنے والد صدرآصف علی زرداری کی خالی کی گئی نشست سے بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد سامنے آئی۔جس روز آصفہ نے بحیثیت ممبر قومی اسمبلی حلف اٹھایا تو ایک طرف پیپلز پارٹی کے ہر کارکن کو محسوس ہورہا تھا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ زندہ ہو کر آصفہ بھٹو زرداری کی شکل میں اسمبلی کے فلور پر آن کھڑی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب میڈیا پر بیٹھی پی پی مخالف رودالیاں دھاڑیں مار مار کر بتا رہی تھیں کہ کس طرح آصفہ بھٹو زرداری کے بلا مقابلہ منتخب ہونے سے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
یاد رہے کہ رونے پیٹنے کا یہ سلسلہ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر آصفہ بھٹو زرداری تک پیپلز پارٹی کی ہر قیادت کے بارے میں جاری و ساری رہا ہے۔ بھٹو مخالفین کی طرف سے یہ بین تو مسلسل کیا جاتا ہے کہ وہ جنرل ایوب کے وزیر خارجہ تھے مگر ان کے کسی نوحے میں اس بات کا ذکر نہیں ہوتا کہ بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلا کر اسے اقتدار سے نکال کر پاکستان پر کتنابڑااحسان کیا۔ یہ لوگ 1977 کے انتخابات کے حوالے سے دھاندلی کی جعلی اور من گھڑت کہانیاں تو اپنے بال نوچ نوچ کر سناتے ہیں مگر یہ نہیں بناتے کہ 1971 میں بھارتی فوج کی قید سے نوے ہزارپاکستانی قیدی چھڑوانے، بھارت کے قبضے سے ہزاروں مربع میل پاکستانی علاقہ واپس لینے اور ایٹم بم بنانے کا احسان بھی اس قوم پر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کیا تھا۔ پیپلز پارٹی مخالف رودالیاں اس بات سے بھی لاعلم ہیں کہ 1974 میں تمام اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو لاہور میں اکٹھا کرکے روس اور امریکہ کے بعد پاکستان کو دنیا کی تیسری بڑی قوت بنانے کی ’’گھناؤنی سازش ‘‘بھی بھٹو نے ہی تیار کی تھی ، جس کے نتیجے میں انہیں تختہ دار پر چڑھنا پڑا۔ یہ وہی رودالیاں ہیں جو ہر چوتھے روز میڈیا پر بیٹھ کر سینہ کوبی کرتی ہیں کہ ہائے ہائے بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے مذاکرات کیوں کئے تھے مگر اس بات کا ذکر نہیں کرتیں کہ شہید بینظیر بھٹو نے ہی پاک فوج کو میزائل ٹیکنالوجی لا کر دینے کا ’’ظلم ‘‘کیا تھا ، جس کے بعد پاکستان کی فضائیں ناقابل تسخیر ہو گئی تھیں۔ یہ رودالیاں سیاسی لیڈروں پر مقدمات کا ماتم تو دن رات کرتی ہیں مگر یہ بتانا ان کیلئے جرم ہے کہ کس طرح جسٹس قیوم جیسے ججوں کے ذریعے قائم کردہ جھوٹے مقدموں میں صدر آصف علی زرداری کو بغیر کسی جرم کے چودہ سال جیل کاٹنا پڑی اور بالآخر وہ تمام مقدمات میں بے گناہ ثابت ہوئے۔ نہ تو انہیں صدر زرداری کا سی پیک کا منصوبہ نظر آتا ہے نہ ہی اٹھارویں ترمیم اور نہ ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ یہ رودالیاں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کےانداز خطابت پر تو دن رات بین کرتی ہیں مگر بحیثیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سولہ ماہ دن رات محنت کر کے انٹرنیشنل ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں جو مرکزی کردار کیا اس کا ذکر ان رودالیوں کی کسی چیخ وپکار میں نہیں ملتا۔
قدرت کا کھیل دیکھئے کہ جس وقت جمہوریت کی خاطر پھانسی چڑھ جانیوالے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نواسی آصفہ بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں بحیثیت ممبر حلف اٹھا رہی تھیں، عین اسوقت پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کا پوتا عمر ایوب خان اس میں رخنہ ڈالنےکیلئے اسمبلی کے فلور پر ہڑبونگ مچانے والوں کی قیادت کر رہا تھا اور میڈیا پر بیٹھی بھٹو مخالف رودالیاں عمر ایوب کے اس عمل کی شان میں قصیدے پڑھ رہی تھیں۔اس روز میڈیا پر بیٹھے لوگوں کا بھی اپنا اپنا مقدر تھا۔ اس روز بعض لوگوں کے نصیب میں جمہوریت کیلئےجان قربان کرنیوالے بھٹو کی نواسی آصفہ بی بی کو دعائیں دینا تھا اور بعض کے نصیب میں پاکستان کے پہلے آئین شکن فوجی ڈکٹیٹر کے بیٹے عمر ایوب کی طرف سے آصفہ بھٹو زرداری کی حلف کی تقریب میں ہڑبونگ مچانے پر اس کی تعریف و توصیف کرنا تھا۔ مختصر یہ کہ اپنا اپنا مقدر ہے۔