(گزشتہ سے پیوستہ)
میرے گزشتہ کالم ’’نوجوان کا مقدمہ‘‘ پر پاکستان بھر سے جہاں مجھے مثبت آرا ملی وہاں تنقیدی پہلو بھی سامنے آئے اور میرے محترم پیاروں نے جو رائے دی اس کو اگر ایک کوزے میں بند کروں تو اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہماری آج کی یوتھ بہت فکرمند اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ دوسری طرف وہ رول آف لاسے بھی بہت واقفیت رکھتی ہے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس ملک کو فیئر انتخابات جہاں آگے لے جا سکتے ہیں وہاں وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔ آج میرے کالم نوجوان کا مقدمہ کا یہ دوسرا اور آخری حصہ ہے۔ میں اپنی بات اور سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیاسی عدم استحکام، ڈولتی معیشت، ہوش ربا مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی کا پھر سے سر اٹھانا، ایک امتحان کے اوپر ایک اور امتحان، بحرانوں سے رنگا پاکستان آج بے شمار چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کبھی کچھ سیکھا ہی نہیں ۔اگر ہم ماضی کو ساتھ رکھتے تو شاید اتنے کٹھن حالات سے پاکستان کو نہ گزرنا پڑتا اور میں نے جن باتوں کا ذکر کیا اگر ان پر روز اول ہی سے کنٹرول کر لیا جاتا تو شاید حالات اس قدر ابتر نہ ہوتے اور تباہی کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے اس کی نوبت نہ آتی۔ میرے نزدیک جب پاکستان آزاد ہوا تھا اس وقت اتنے برے حالات نہیں تھے جس قدر آج ہمیں درپیش ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج اسکول سے یونیورسٹی تک جو نوجوان ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں، ان کیلئے کیا پالیسیز بنائی گئیں کہ جہاں ان کا مستقبل بہتر ہو وہاں یہ نوجوان پاکستان کی ترقی اور اس کی خوشحالی میں اپنا رول ادا کرتے نظر آئیں۔ پوری دنیا کا نظام آج یوتھ کے پروگرامز پر چل رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک یوتھ کو ایسے راستے بھی نہیں دیئے گئے ،نہ ان کو اچھے راستے دکھائے گئے۔ یہاں مجھے اقبالؒ کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
نوجوانوں کے بارے میں اقبالؒ کے تصور کی طرف جائیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد نوجوانوں کا جو کردار اور کام سامنے آئیں گے اس سے ہم پاکستانی بنیادوں کو جہاں مضبوط کریں گے وہاں آنے والی نسلوں کو بھی اچھی تعلیم، اچھے ادارے، اچھی روایات اور سب سے بڑھ کر ان کو پاکستان کے اندر اچھی زندگی گزارنے کا احساس دیں گے۔ آج پاکستان کی آبادی 26کروڑ سے زائد نظر آ رہی ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہماری 60 فیصد یوتھ ہے مگر میرے نزدیک جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے یوتھ تو شاید 70فیصد کا ہندسہ کراس کر چکی ہے۔ ہماری فکر تو یہ ہے کہ ہم اپنی یوتھ کو کیسے کنٹرول کریں جس کو پاکستانیت کے جذبوں سے بھی دور کر دیا گیا ہے۔ میرے نزدیک حکومت کی تو بے شمار ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ وہ سب سے پہلے یوتھ کیلئے کوئی ایسے منصوبے سامنے لائے جو نہ صرف طویل المدت ہوں جہاں سے ان کو ایجوکیشن کے علاوہ ہنرمندی کے کورسز سے گزارا جائے۔ اس کے پاس ہنر ہو تو وہ کچھ کرنے کے قابل ہو۔ اب بدقسمتی یہ بھی رہی کہ ہمارے تعلیمی شعبہ جات میں اتنی کمزوریاں ہیں کہ نوجوان کو ابتدا ہی سے تفکرات میں ڈال دیا جاتا ہے، پوری دنیا میں سب سے پہلے تعلیمی شعبہ پر توجہ دی جاتی ہے اور وہ لوگ صرف ڈگری نہیں بلکہ ہنر کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ڈگری تو دے دی جاتی ہے مگر مستقبل کا راستہ نہیں دیا جاتا۔ میرے خیال میں جس ملک میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم کر دیئے جائیں جو آنے والے کل کو یوتھ میں شمار ہوں گے تو پھر ترقی کا جو خواب نوجوان کو دکھائے جاتے ہیں۔ کیا وہ سب دھوکہ ہیں؟
دکھ تو یہ ہے کہ ہمارا وہ نوجوان جس نے پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے وہ پاکستان ہی کو چھوڑ رہا ہے جس نے اس کو سنوارنا ہے اور وہ مایوس ہے اس کو یہاں سوائے تباہی کے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ اگر تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھوں تو دوسرے ممالک کے نوجوان نہ صرف دوسرے ممالک میں اعلیٰ تعلیم/ جدید دور کے جدید آرٹ سے لے کر سائنس اور جدید ماحول میں ڈھل جاتے ہیں اور پھر واپس لوٹ کر وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے ان کا نوجوان اپنے اچھے مستقبل کے گھر داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ حکومت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام کام چھوڑ کر پہلے اپنی یوتھ کی فکر کرے۔ یوتھ کا مستقبل بہتر ہوگا تو پاکستان آگے دوڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوکری کی بجائے اپنے کورسز میں ہنرمندی کے مضامین رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں میں پریکٹیکل کلاسز کا اجرا کریں یہ جو ہمارے ہاں ترقی کا سفر رکا ہوا ہے اس کی بنیادی وجہ ہمارے ہاں 76سال سے تعلیمی اداروں میں ہنر کی تعلیم کا فقدان ہے۔ ہم آج کے نوجوان کو ہنر کی تعلیم نہ دے کر نہ صرف اس کیلئے بلکہ پاکستان کے لئے بھی تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
آئیں آج ہم سب عہد کریں کہ اپنی اولین فرصت میں برائی کی سمت بڑھنے والے نوجوانوں کو پہلے کتاب پھر ہنر اور پھر اس کے اچھے مستقبل کیلئے ہر طرح کے ایسے پروگرامز آرگنائز کریں جن کے ذریعے کم از کم ان کو بے راہ روی سے توروکا جا سکے۔